جلسہ سالانہ قادیان کی تاریخ، اہمیت و برکات

خان مامون احمد مربی سلسلہ ناظم اشاعت مجلس خدام الاحمدیہ قادیان

آج سے ٹھیک 129سال قبل بانیٔ سلسلہ عالیہ احمدیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے خدائی حکم کے ماتحت 27؍دسمبر 1891ء کوقادیان دارالامان میں جلسہ سالانہ کی بنیاد ڈالی اس وقت کی حاضری 75؍افراد پر مشتمل تھی۔اس کے دوسرے سال کی حاضری قریباً 500کی تھی جس میں 327؍افراد باہر سے تشریف لائے ہوئےتھے۔اس طرح ہر سال یہ تعداد خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑھتی رہی۔تقسیم ملک سے قبل یعنی1946ءمیں متحدہ ہندوستان کا آخری جلسہ سالانہ جو حضرت مصلح موعودؓ  کے عہد مبارک میں قادیان میں منعقد ہوا تھا اس کی حاضری 39786ہزار کے قریب تھی۔

(الفضل یکم جنوری 1947ءصفحہ3)

اس کے بعد یہ جلسہ خلیفۂ وقت کی موجودگی میں ربوہ میں ہر سال منعقد ہوتا رہا ساتھ ہی دائمی مرکز قادیان دارالامان میں بھی اپنے محدود وسائل میںہر سال جلسہ سالانہ کا انعقاد ہوتا رہا۔1983ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی موجودگی میں ربوہ میں جو آخری جلسہ منعقد ہوا اس کی حاضری قریباً 275000سے زائد تھی۔(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 10صفحہ447)اس کے بعد پاکستان حکومت کی طرف سے جلسہ منعقد کرنا ممنوع قرار دیا گیا۔پاکستان کے ظلم و ستم کی وجہ سے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے 1984ء میں پاکستان سے ہجرت فرماکر لندن کو اپنا مرکز بنایا اب وہاں ہر سال برطانیہ کا جو سالانہ جلسہ منعقد ہوتا ہے وہ خلیفۂ وقت کی موجودگی کی وجہ سے عالمگیر حیثیت اختیار کر چکا ہے۔

قارئین حضرات جیسا کہ ہم سب جانتے ہے کہ جلسہ سالانہ قادیان جماعت احمدیہ عالمگیر کی تاریخ کا اہم حصہ ہے۔یہ خدا تعالیٰ کی عظیم الشان قدرتوں کا ایک نشان ہے۔جماعت احمدیہ کی روز افروز ترقی کا آئینہ دار ہے۔خاکسار نے لفظ آئینہ دار اس لئے استعمال کیا ہے کہ جیسے آئینہ انسان کو اس کی جسمانی خامیاں اور خوبیاں ظاہر کر کے دکھاتا ہے ٹھیک اسی طرح ہر سال جلسہ سالانہ کے خطابات میںسیدنا حضور انور ہمیں ہماری سال بھر کی کارکردگی سے روشناس فرماتے رہتے ہیں۔

قارئین حضرات! سیدناحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے از خود تین جلسے ملتوی فرمادئیے تھےیعنی ان تین سالوں میں جلسہ منعقد نہ ہو سکا ان کی تفصیل درج ذیل ہے:۔

1۔سن 1893ء کا جلسہ سالانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے از خود ملتوی فرما دیا تھا۔

2۔(سن1896ء) میں مؤرخہ 26،27،28اور 29 دسمبر کی تاریخوں میں پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں جلسہ پیشویانِ مذاہب منعقد ہونا تھااور اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مضمون(اسلامی اصول کی فلاسفی) پڑھا جانا تھا۔اس وجہ سے جلسہ سالانہ قادیان ملتوی کر دیا گیا تھا۔

3۔سن 1902ء میں ہندوستان کےمختلف علاقوں میں طاعون کی بیماری خطر ناک حد تک پھیلتی چلی جا رہی تھی اور اس کا انتشار بھی قرآن مجید اور احادیث کی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے اظہار کے لئے تھا۔لہٰذا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اعلان فرمایا کہ ’’چونکہ آج کل مرض طاعون ہر ایک جگہ پر بہت زور پر ہے اس لئے اگر چہ قادیان میں نسبتاً آرام ہے، لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بارعایت اسباب بڑا مجمع جمع ہونے سے پرہیز کی جاوے۔

(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 481)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس جلسہ کی بنیاد خدا تعالیٰ کے اذن سے رکھی تھی اس کی پیروی میں آج مختلف ممالک میں جماعت احمدیہ اپنے جلسے منعقد کرتی ہے جن میں سر فہرست برطانیہ، جرمنی،امریکہ، ، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، آسٹریلیا، آئرلینڈ، آئیوریکوسٹ، البانیہ، برازیل، بیلجیم، بورکینا فاسو، بوسنیا، بینن، تنزانیہ، جاپان، ڈنمارک،ساؤتھ افریقہ، سپین،سوئٹزرلینڈ،سویڈن،سیرالیون،غانا ، فرانس،کینیڈا،کینیا،ماریشس،نائیجیریا، ہالینڈ، ناروے، اور مینمار وغیرہ ہیں۔ان جلسوں کے اغراض و مقاصد بھی وہی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسے کی اہمیت اور اس کا مقصد مندرجہ ذیل الفاظ میں تحریر فرمایا:

1۔اس جلسہ کی اغراض میں سے بڑی غرض تو یہ ہے کہ تا ہرایک مخلص کو بالمواجہ دینی فائدہ اٹھانے کاموقعہ ملے اوران کے معلومات وسیع ہوں اورخدا تعالیٰ کے فضل و توفیق سے ان کی معرفت ترقی پذیر ہو۔پھر اس کے ضمن میںیہ بھی فوائد ہیں کہ اس ملاقات سے تمام بھائیوں کا تعارف بڑھے گا اور اس جماعت کے تعلقات ِ اخوّت استحکام پذیر ہوں گے۔

ما سوا اس کے جلسہ میں یہ بھی ضروریات میں سے ہے کہ یورپ اور امریکہ کی دینی ہمدردی کےلئے تدابیر حسنہ پیش کی جائیں کیونکہ اب یہ ثابت شدہ امر ہے کہ یورپ اور امریکہ کے سعید لوگ اسلام کے قبول کرنے کے لئے طیار ہو رہے ہیں….اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں۔ یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق ا ور اعلائے کلمہ دین حق پر بنیاد ہے۔اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خداتعالیٰ نے اپنے ہاتھ سےرکھی ہے اور اس کے لئے قومیں طیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی کیونکہ یہ اُس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں….

(اشتہار7؍دسمبر 1892ء)(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 340،341)

دین تو چاہتا ہےکہ مصاحبت ہو، پھرمصاحبت سے گریز ہو تو دینداری کے حصول کی امید کیوں رکھتا ہے؟ہم نے بارہا اپنے دوستوں کو نصیحت کی ہے اورپھر کہتے ہیں کہ وہ بار بار یہاں آکر رہیں،اور فائدہ اٹھائیں۔مگر بہت کم توجہ کی جاتی ہے۔لوگ ہاتھ میں ہاتھ دے کر دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں۔مگر اس کی پرواہ کچھ نہیں کرتے۔ یاد رکھو قبریں آوازیں دے رہی ہیں اور موت ہر وقت قریب ہوتی جا رہی ہے۔ہر ایک سانس تمہیں موت کے قریب کرتا جاتا ہے اور تم اسے فرصت کی گھڑیاں سمجھتے جاتےہو۔اللہ تعالیٰ سے مکر کرنا مومن کا کام نہیں ہے جب موت کا وقت آگیا پھر ساعت آگے پیچھے نہ ہوگی وہ لوگ جو اس سلسلہ کی قدر نہیں کرتے اور انہیں کوئی عظمت اس سلسلہ کی معلوم ہی نہیں ان کو جانے دو مگر ان سب سے بد قسمت اور اپنی جان پر ظلم کرنےوالا تو وہ ہےجس نے اس سلسلہ کو شناخت کیا اور اس میں شامل ہونے کی فکر کی۔لیکن اس نے کچھ قدر نہ کی۔وہ لوگ جو یہاں آکر میرے پاس کثرت سے نہیں رہتے اور ان باتوں کو جو خدا تعالیٰ ہر روز اپنے سلسلہ کی تائید میں ظاہر کرتا ہےنہیں سنتے اور دیکھتے وہ اپنی جگہ کیسے ہی نیک، متقی اورپرہیزگار ہوں۔ مگر یہی کہوں گا کہ جیسا چاہیئے انہوں نے قدر نہ کی۔میں پہلے کہہ چکا ہوںکہ تکمیل علمی کے بعد تکمیل عملی کی ضرورت ہے اور تکمیل عملی بدُوں تکمیل علمی کے محال ہے اور جب تک یہاں آکر نہیں رہتے تکمیل علمی مشکل ہے۔

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 124۔19؍جنوری 1898ء)

2۔اس جلسہ سے مدعا اور اصل مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کرلیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلی جھک جائیں اور ان کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راستبازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لئے سر گرمی اختیار کریں۔۔۔دل تو یہی چاہتا ہے کہ مبائعین محض للہ سفر کرکے آویں اور میری صحبت میں رہیں اور کچھ تبدیلی پیدا کرکے جائیں کیونکہ موت کا اعتبار نہیں میرے دیکھنے میں مبایعین کو فائدہ ہے مگر مجھے حقیقی طور پر وہی دیکھتا ہے جو صبر کے ساتھ دین کو تلاش کرتا ہے اور فقط دین کو چاہتا ہےسو ایسے پاک نیت لوگوں کا آنا ہمیشہ بہتر ہے۔

(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد6 صفحہ 395-394)

3۔میں ہرگز نہیں چاہتا کہ حال کے بعض پیر زادوں کی طرح صرف ظاہری شوکت دکھانے کیلئے اپنے مبائعین کو اکٹھا کروں بلکہ وہ علّت ِ غائی جس کے لئے میں حیلہ نکالتا ہوں اصلاحِ خلق اللہ ہے پھر اگر کوئی امر یا انتظام موجب اصلاح نہ ہو بلکہ موجب فساد ہو تو مخلوق میں سے میرے جیسا اس کا کوئی دشمن نہیں۔

(شہادت القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحہ395)

(1) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ سالانہ کے جاری کرنے کے جو مقاصداور اہداف بیان فرمائے تھے۔ وہ بڑی شان سے پورے ہوئے اور ہوتے چلے جا رہے ہیں اورقیامت تک ہوتے چلے جائیں گے۔ان شاء اللہ تعالیٰ

(2)جو افراد جلسہ سالانہ میں شامل ہوتے ہیں انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اورآپ کے خلفاء کرام کی دعاؤںکا فیض ملتا رہتا ہے۔

(3) جلسہ سالانہ کے دنوں میں ایسا ماحول میسّر آتا ہے کہ شاملین کی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف رہتی ہے اور انہیں کثرت سے تسبیح و تحمید کا موقعہ ملتا ہے۔جلسہ کی روشن تاریخ گواہ ہے کہ لاکھوں احمدی افراد نے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر جو دعائیں کیں اللہ تعالیٰ نے انہیں قبول فرمایا۔

(4)قرآنی ارشاد ہے إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ(الحجرات آیت 11)(کہ مومن بھائی بھائی ہوتے ہیں) اس ارشاد ربانی کا عملی اظہار جلسہ سالانہ کے موقعہ پر ہوتا ہے اور دنیا کے مختلف ملکوں، خطوںاور علاقوں سے افراد جلسہ سالانہ میں شریک ہوتے ہیں اور ان کی باہمی محبت، تعلق اور رابطے میں مثالی اضافہ ہو جاتا ہے۔

(5)جلسہ میں شامل ہونے والے احباب کے علم و معرفت میں غیرمعمولی اضافہ نظر آتاہے۔اور یہی وجہ ہے کہ شاملین جلسہ کا علمی معیاراغیار سے بہت اعلیٰ اور بہتر ہے۔

(6) جو نوجوان بچے اور بچیاں جلسہ میں شامل ہوتے ہیں جلسہ کے دنوں کا ماحول ان کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

(7)جلسہ سالانہ قادیان میں شریک ہونے والوں کو ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں مقامات مقدسہ میں دعاؤں کا موقع میسّر آجاتا ہے۔

(8)ایک ضمنی فائدہ شاملین جلسہ سالانہ کو یہ ہوتا ہے کہ والدین اپنے لڑکے اور لڑکیوں کے مناسب رشتے طے کرلیتے ہیں۔اور ان کے نکاحوں کے اعلان اس موقعہ پر ہو جاتے ہیں۔

(9) شاملین جلسہ کو ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ نظارت نشر واشاعت و دیگر ادارہ جات سے طبع ہونے والی کتابیں دیکھ کر خریدتے ہیں۔

(10)اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں حج کے مقاصد بیان فرمائیں ہیں ان میں سے ایک یہ ہے: لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ (سورۃ البقرۃ آیت 199)

تمہارے لئے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ حج کے ایام میں اپنےرب کے فضل کی جستجو کرو۔اس آیت کے بہت معنے اور مفاہیم ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ حج کے مناسک ادا کرنےکے ساتھ ساتھ آپسی تعلقات کو بھی وسیع کیاجائے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں ہر میدانِ زندگی کے ماہرین موجود ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر،انجینئر،تاجر،صنعتکار،مختلف علوم کے پروفیسر،سائنسدان وغیرہ۔ان میں سے بہت سے جلسہ سالانہ میں شرکت کے لئے آتے ہیں۔ان کی باہم ملاقاتیں اور تبادلہ خیالات ہوتاہے۔اور ایک دوسرے کو تعاون کے طریق پر مشورے ہوتے ہیں۔اور جماعتی لحاظ سے ترقی کی راہیں کھلتی اور وسیع ہوتی ہیں۔

اس کے علاوہ بھی جلسہ سالانہ کےبے شمار فوائد و برکات ہیں۔ جسے ہر وہ انسان محسوس کرتا ہے جو صحت نیت کے ساتھ جلسہ میں شریک ہوتا ہے۔

حدیث کی روشنی میں جلسہ سالانہ کی اہمیت

حضرت ابو ہریرہؓ  بیان کرتے ہیںکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے کچھ بزرگ فرشتے گھومتے رہتے ہیں اور انہیں ذکر کی مجالس کی تلاش رہتی ہے۔جب وہ کوئی ایسی مجلس پاتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو رہا ہو تو وہاں بیٹھ جاتے ہیں اور پروں سے اس کو ڈھانپ لیتے ہیں۔ساری فضا ان کے اس سایۂ برکت سے معمور ہو جاتی ہے۔جب لوگ اس مجلس سے اٹھ جاتے ہیں تو وہ بھی آسمان کی طرف چڑھ جاتے ہیں۔وہاں اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے۔ حالانکہ وہ سب کچھ جانتا ہے۔کہاں سے آئے ہو؟ وہ جواب دیتے ہیں۔ہم تیرے بندوں کےپاس سے آئے ہیں جو تیری تسبیح کر رہے تھے،تیری بڑائی بیان کر رہے تھے،تیری عبادت میں مصروف تھے اور تیری حمد میں رطب اللسان تھے اور تجھ سے دعائیں مانگ رہے تھے۔اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں؟ اس پر فرشتے عرض کرتے ہیں کہ وہ تجھ سے تیری جنت مانگتے ہیں۔اللہ تعالیٰ اس پر کہتا ہے کیا انہوں نے میری جنت دیکھی ہے؟ فرشتے کہتے ہیں۔ اے میرے رب انہوں نے تیری جنت دیکھی تو نہیں۔اللہ تعالیٰ کہتا ہے ان کی کیا کیفیت ہوگی اگر وہ میری جنت کودیکھ لیں۔پھر فرشتے کہتے ہیں وہ تیری پناہ چاہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کہتا ہے وہ کس چیز سے میری پناہ چاہتے ہیں؟فرشتے اس پر کہتے ہیں تیری آگ سے وہ پناہ چاہتے تھے۔اللہ تعالیٰ کہتا ہے کیا انہوں نے میری آگ دیکھی ہے؟ فرشتے کہتے ہیں دیکھی تو نہیں۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے ان کا کیا حال ہوتا اگر وہ میری آگ کو دیکھ لیں؟پھر فرشتے کہتے ہیں وہ تیری بخشش طلب کرتےتھے۔اس پر اللہ تعالیٰ کہتاہے میں نےانہیں بخش دیا اور انہیں وہ سب کچھ دیا جو انہوں نےمجھ سے مانگا اور میںنے ان کو پناہ دی جس سے انہوں نے میری پناہ طلب کی۔اس پرفرشتےکہتے ہیں:اے ہمارے رب!ان میں فلاں غلط کار شخص بھی تھا وہ وہاں سے گزرا اور ان کو ذکر کرتے ہوئے دیکھ کر تماش بین کے طور پر ان میں بیٹھ گیا۔اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اس کو بھی بخش دیا کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والا بھی محروم اور بدبخت نہیں رہتا۔

(مسلم کتاب الذکر باب فضل مجالس الذکر)

حدیث میں ذکر ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب ان فرشتوں سے اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا کہ اس جلسے میں میرے بندے کیا کر رہے تھے تو فرشتے جواب دیں کہ یُسَبِحُوْنَکَ ویُکَبِّرُوْنَکَ و یُھَلِّلُوْنَکَ و یَحْمَدُوْنَکَ وَ یَسْئَلُوْنَکَ۔اے اللہ! (جلسہ میں شاملین)تیری تسبیح کر رہے تھے۔ تیری بڑائی بیان کر رہے تھے اور لا الٰہ الّا اللہ کی صدا بلند کر رہے تھے۔

قارئین کرام!! جس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الخامس نصرہ اللہ نصراً عزیزا جلسہ میں خطاب فرما رہے ہوتے ہیں۔اور درمیان میں اللہ اکبر پاک محمد مصطفیٰ ﷺ کے نعرہ ہائے تکبیر و تھلیل بلند ہو رہے ہوتے ہیں۔اور ان نعروں سےایم۔ٹی۔اے کے ذریعہ اس کائنات کی فضائیں گونج اٹھتی ہیںاور اختتامی دعامیں جو رقت و سوز ہوتا ہے،وہ بعینہ وہ منظر ہوتا ہے جو سیدنا محمد ﷺ کی حدیث میں بیان ہوا ہے۔’’ جلسہ سالانہ کے علاوہ دنیا میں کوئی جلسہ ایسا نہیں جس کی قیادت و امامت اللہ کا قائم کردہ خلیفہ کر رہا ہوتاہے۔اور اس کی اقتداء اور معیت میں تکبیر تھلیل کے نعرے کائنات کی فضاؤں میں گونج رہے ہوں۔

 126واں جلسہ سالانہ قادیان مؤرخہ 27تا29؍دسمبر2019ء کو منعقد ہونا طے پایا تھا لیکن ملکی حالات ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے ٹھیک جلسہ سالانہ کے 6یوم قبل یعنی مؤرخہ 21؍دسمبر کوسیدنا حضور انور کی طرف جلسہ ملتوی کئے جانے کی اطلاع موصول ہوئی۔بعد ازاں ہندوستان کی ملکی حالات اور زیادہ خطرناک ہوجانے کے باعث جلسہ سالانہ کینسل فرمانے کی ہدایت موصول ہوئی۔نیز دوران سال 2020ء میں کورنا وائرس کی وبائی بیماری کی وجہ سے جلسہ سالانہ قادیان کو سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے منسوخ کرنے کا ارشاد فرمایا کیونکہ حکومت ہند کی طرف سے کسی بھی پروگرام کےلئے 50سے زائد افراد کو اکٹھے جمع ہونے کی اجازت نہیں ہے۔

آخر میں قارئین حضرات سے دعا کی عاجزانہ درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ خاکسا ر کی اس حقیر سی کوشش کو نفع الناس بنائے اور مزید تحقیقی مضامین پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)