ميدانِ تبليغ ميں تائيد و نصرت کےايمان افروز ذاتي واقعات

از مولانا غلام نبي نياز صاحب سابق مبلغ انچارج سري نگر کشميرادارت مشکوٰة نے احقر کو ارشاد فرمايا ہے کہ مذکورہ موضوع پر کچھ تحرير کيا جائے۔

ميدان عمل کي جب بات کريں تو دونوں ديني اور دنيوي معاملات ميں ہر کسي کو اللہ تعاليٰ کي تائيد و نصرت کے نظارے ہر جگہ بار بار نظر آتے ہيں۔ ليکن جہاں تک واقفين زندگي کا تعلق ہے۔ انہوں نے تو دنياوي معاملات کو اللہ تعاليٰ کے حوالے کر کے دين کے درد کو سينوں ميں بسايا ہوتا ہےيا بسانے کا وعدہ کيا ہے اور يہي بات اُن کي شان ہے

مٹي کي طرح کٹ ہي گيا آسمان تلے

 فضل و کرم سے اسکےگلريز ہوگيا

احقير کي حقيقت

جہاں تک احقير کي ذات کا سوال ہےوہ تو ايک ادنيٰ ،لا شے محض معمولي اور نا قابل التفات توجہ حامل ذات ہے ۔کمزوريوں ،کوتاہيوں اور بے شمار خطاؤں سے پُر يہ ذات اپنے اندر تو کوئي خوبي نہيں پاتي ۔ ہاں اپنے پيارے اور محبوب پروردگار ربِ رحمٰن خدا کے فضلوں اور کرم فرمائيوں کو اگر شمار کريں تو بے انتہا ہيں اور يہ سب دامنِ خلافت سے وابستگي اور جماعت کي دين اور نوازش ہے۔ کيا يہ کم نصرت وتا ئيد باري تعاليٰ ہے کہ اس نے محض اپنے فضل سے وقف کي توفيق بخشي اور حتي الوسع جب تک اس کي مرضي رہي کام کرنے کي سعادت بخشي۔ ہر جگہ جہاں ميں رہا جہاں ميں گيا، احباب جماعت کے تعاون سے ، دعاؤں سے اور نيک خواہشات سے موليٰ کريم کي بے شمار تائيدات اور نصرتوں مورد رہا۔ اپني اس قيدِ حيات ميں احقير کو اپنے بزرگان ہمدردوں اور مہربان اساتذہ اور علمائے کرام سے يہي درس ملا ہے اور اس کو خاکسار نے اپني روز مرہ اوقات ميں اپنانے کي کوشش بھي کي ہے ۔ وہ يہ کہ اپني ذات کي نفي کرتے ہوئے موليٰ کريم کر دربار ميں گريہ وزاري عاجزي اور بے کس کا رونا رونے سے اس کي رحمت کے دروازے کُھل جاتے ہيں اور سالک اپني مرادوں ميں کامياب ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا۔ کسي دانا نے کيا ہي خوب کہا ہے۔

رحمتم موقوف آں خوش گريہ ھاست

بعد ازاں از بجزِ رحمت موج خاست

يعني جب انسان پشيماني ميں گريہ وزاري کرتا ہے تو اس وقت رحمت الہي کا دريا جوش ميں آجاتا ہے پھر رونے والے کا دامن اللہ تعاليٰ اپني رحمت سے بھر ديتا ہے۔چنانچہ خاکسار نے ہميشہ اپني بے بسي ۔ کم علمي۔ بے بضاعتي اور نيستي کو سامنے رکھکر اپنے موليٰ کريم پر بروسہ کيا اور اپني بساط اور ظرف کے مطابق اسي ذات ِ پاک کي طرف رجوع کيا تو بہت سے تائيدات کا حامل بنا ۔ داخلاً اور خارجاً جو اللہ تعاليٰ کي بے پناہ نصرت اور تائيدات خاکسار کے شامل حال رہيں وہ ايمان افروز روح پر ور اور اللہ تعاليٰ کي زندہ ہستي جس پر کامل بھروسہ کيا جا سکتا ہے اور کيا جانا چائيے کي دليل بھي ميرے لئے بنيں ۔ خاکسار جہاں جہاں رہا اور جہاں جہاں گيا۔ احباب جماعت مردوزن ۔ طفل و جوان يعني انصار ،لجنات، خدام اور اطفال وناصرات کا بھر پور تعاون ملا۔تبھي اللہ تعاليٰ کے فضلوں کو پانے کا مستحق قرار پايا ورنہ من آنم کہ من دانم:۔

ميرا مختصر سفر زندگي

يہ يکم جون۱۹۶۳ءکي بات ہے جب احقير کو محض اللہ تعاليٰ کے فضل سے جامعہ ميں داخلہ ملا، مہربان و مونس اساتزہ کرام کي کاوشوں اور محنت کے بل بوتےيکم مارچ ۱۹۶۷ء مدرسہ احمديہ سے فراغت ہوئي اگست ۱۹۶۸ء کو يادگير کرنا ٹکہ ميں تعيناتي ہوئي۔ ستمبر ۱۹۷۰ء کو انچارچ مبلغ سرينگر کشمير مقرر ہوا ۔ دوران عرصہ قيام ياد گير چار ماہ کيلئے ہبلي دھاروادڑ بھيجا گيا۔ سرينگر سے بمبئي کيلئے ۱۹۷۲ء کو تبادلہ کيا گيا ۔ تين سال قيام کے بعد واپس سرينگر منتقل ہونے کا ارشاد ہوا اکتوبر ۱۹۹۱ء کو دہلي تبادلہ ہوا ۔ وہاں کچھ مہينے قيام کرنے کے بعد واپس سرينگرآنا پڑا ۔

احباب جماعت کا غير معمولي تعاون اور تائيدو نصرت الہي کے د لکش اور روح پرور نظارے

خاکسار عرض کر چکا ہے کہ يہ احقر جہاں جہاں رہا احباب جماعت کا بھر پور اور مخلصانہ تعاون ملتا رہا ۔ وادي کشمير کي ذمہ داري کے ساتھ ساتھ احقير کو پوري رياست کي ذمہ داري بھي تفويض ہوئي تھي۔ بلا شبہ يہ ايک اہم ذمہ داري تھي۔چنانچہ اللہ تعاليٰ کي عناعت اور تائيد سے پوري رياست کے احباب نے نہ صرف بھر پور تعاون ہي ديا بلکہ قابل تحسين رہنمائي اور رہبري بھي فرمائي۔ ميں اپنے آپ کو ان سب کا ممنون ہوں اور سوائے نيک خواہشات اور دعاؤں کے ان کو کوئي بدلہ نہيں دے سکتا۔ اسي طرح ميں شکر گزار ہوں رياست ميں کام کرنے والےسبھي مبلغين ومعلمين کرام کا بھي کيونکہ ان سب نے کسي نہ کسي رنگ ميں خاکسار کي ہر ممکن مدد اور رہنمائي بھي کي اللہ تعالي سب کو جزائے خير سے نوازے اس غير معمولي تعاون کو ميں اللہ تعالي کي تائيد و نصرت سمجھتا ہوں ورنہ چہ نسبت خاک راباعالم پاک۔ يامن آنم کہ من دانم، حقيقت ميرے سامنے ہے ميري سب کے لئے يہي دعا ہے

 خدا سکھي صدا رکھے اور با برگ و بار رکھے

 ہرہر مصيبت سے تمہيں دائم رستگاررکھے

يادگير سے ہبلي

خاکسار کو کچھ عرصہ کے ليے يادگير سے ہبلي منتقل ہونا پڑا کيونکہ وہاں کي ايک عدالت نے جماعت کے خلاف ايک ايسا فيصلہ ديا تھا جس ميں ہم نہ مدعي تھےاور نہ ہي مدعا عليہ اس مقدمے کے کاغذات حاصل کرنے تھے ۔چنانچہ خاکسارکي رہائش ايک ايسے ہوٹل ميں رہي جو اس وقت کے صدر جماعت مسميّٰ حضرت صاحب منڈاسگھر کے دولت خانے سے ڈيڑھ دو ميل کے فاصلے پر تھا۔ آنا جانا تو لازم تھا۔ چنانچہ تبليغي و تربيتي کام کو جاري رکھنے کے پروگرام بنے۔ صدر صاحب کے گھر ميں بعد نماز مغرب درس کا انتظام کيا گيا ۔احباب جماعت مردوزن جو چند ايک گھرانوں پرمشتمل تھے دور دور سے آ کر باجماعت نماز ادا کرنے اور درس سننے آتے رہے۔ محترم صدر صاحب کا دولت خانہ خاص علاقے ميں اکيلا احمدي گھرانہ تھا ارد گرد بريلوي فرقے سے تعلق رکھنے والے بيسوں گھرانے آبادہے ان کي مسجد بھي نزديک ہي تھي۔ صدر صاحب کے گھر ميں احمديوں کا آنا اوردرس وتدريس شروع ہو نا اُن لوگوں کو کب برداشت تھا۔ ايک روز دورانِ درس سينکڑوں افراد نے محترم صدر صاحب کے گھر پردھاوا بولا۔ حالات نازک بن گئے خصوصاً زيادہ فکر احمدي خواتين اور بچوں کي ہوئي۔ حملہ آور پے در پے اندر آنے کي کوشش کرتے تھے۔ چنانچہ مجھے کسي طرح ہمارے احمدي دوست باہر نکلنے ميں کامياب ہوئے اور پوليس تک رسائي کي۔ پوليس آئي اور احمدي احباب اور خاکسار کو بحفاظت اپني تحويل ميں باہر نکالا ۔فالحمدللہ علي احسانہ

کچھ دنوں کے بعد حسب معمول خاکسار بعد نمازو درس واپس ہوٹل جانے کے ليے نکلا تو ايک سنسان بازار ميں رات کو چار پانچ غنڈوں نے مجھے بد ارادے سے گھيرا۔ وہ پيٹنے ہي لگے تھے تو خاکسار نے اپني قميض کے آستين چڑھائے يہ حکمت کارگر ہوئي اور وہ  منتشر ہو گئے۔ يہ اللہ تعالي کي خاص تائيد ہي تو تھي ورنہ ميري کيا مجال ان کا مقابلہ کر پاتا۔

ايک ديوبندي مولوي ’’رياض‘‘ نامي جماعت کي سخت مخالفت کرتا تھا۔ چنانچہ خاکسار کي موجودگي کي وجہ سے مخالفت ميں اور بڑھ گيا ۔ بے وسيلہ اور غريب احمدي احباب کي دعائيں رنگ لائيں چناچہ اس مولوي پر گندہ الزام لگا اور وہ ذليل ہو کر رہ گيا۔ محترم صدر صاحب نے تبليغي وتربيتي پروگرام کا ايک قابل ِتحسين پروگرام ترتيب ديا تھا۔ چنانچہ کثيرتعدادميں لٹريچر تقسيم کيا گيا۔ کرناٹکہ کے گورنرہبلي کے دورے پر آئے ہميں بھي مدعو کيا گيا۔ اور اللہ تعالي نے ان کي خدمت ميں جماعت احمديہ ہبلي کو قرآن مجيد انگريزي ترجمہ اور دوسري کتاب پيش کرنے کي توفيق ملي۔ يہ خبر اخبارات کي زينت بن گئي۔ مقدمے کا کاغذات کے حصول کے ساتھ ساتھ جماعت کي اہم ضرورت اور خواہش کو بھي اللہ تعالي نے پورا کيا اور ہم سب کي محنت اور کوشش سے قبرستان کے ليے کچھ ارضي ميئر شہر نے نہايت درجہ مہرباني سے الاٹ کي۔ ذالک فضل اللہ يوتيہ من يشاء يہ اللہ تعالي کي خاص تائيد و نصرت سے ممکن ہوا۔ يادگير کے مخلصين نےاحقر کو بہت عزت دي۔ بہت محبت کي۔ ہر ممکن خيال رکھا ۔يادگير احقر کيلئے دبستان تجربہ گاہ تھا۔ بہت کچھ يہاں حاصل ہوا کچھ ايمان افروز واقعات بھي ہوئے۔ ايک دفعہ مجھے سخت سرد رد تھابے چيني تھي ليکن ہمارے خدا نے کچھ غير احمديوں کو لايا اور انہيں تبليغ کرنے کي خواہش ظاہر کي سر درد کي پرواہ کيے بغير ان کو سمجھايا۔ وہ مطمئن ہوئے اور خاکسار کا سر درد دور ہوافالحمد علي فضلہ و کرمہ اسي طرح اور بہت سارے واقعات ہيں اللہ تعالي بہترين نتائج برآمد کرتا رہے۔

سري نگر ميں

يادگير سے خاکسار کا تبادلہ بطور انچارج مبلغ سرينگر ہوا۔ اور پوري وادي کشمير کي ذمہ داري دي گئي بعدہ پوري رياست جموں وکشمير کي ذمہ داري سونپي گئي۔ سري نگر ميں احقرکا قيام کافي دير تک رہا۔ اس دوران اللہ تعالي کي تائيد و نصرت کے بے شمار واقعات رونما ہوئے۔ ان کو ديکھ کر اللہ تعالي کي قدرت کے آگے سرخم ہوتا رہا۔ اور اپنے ربِ رحمان کي کرم فرمائيوں کي ياديں ہميشہ سرمايہ حيات بني رہي ہيں اور رہيں گي۔ سرينگر تبادلہ کے وقت اس وقت کے ناظر دعوت و تبليغ حضرت صاحبزادہ مرزا وسيم احمد صاحب نے خاکسار کو ہدايت اور نصيحت فرمائي کہ فرض ِمنصبي کے علاوہ حضرت خليفة المسيح الثالث ؒکا يہ ارشاد ہميشہ زير نظر رہے کہ سرينگر ميں تعمير مسجد کي اجازت حاصل کي جائے اور وادي کشمير کے خدّام کوorganise کرکے اپني ذمہ داريوں کي طرف خصوصي توجہ دينے کي تلقين کرتے رہيں۔ چنانچہ حضور رحمہ اللہ تعاليٰ کے ارشادات کو ترجيحي بنيادوں پر ليا گيا۔اور مسجد بن گئي اور احباب جماعت کے تعاون سے تعمير مسجد کي جازت حاصل کرنے کي کاروائي متعلقہ اداروں کے ساتھ شروع کي گئي۔ دراصل يہ معاملہ اس ليے اہم بن گيا تھا کيونکہ حکام نے مہاراجہ کشمير کي طرف سے الاٹ شدہ پلاٹ پر جوليزپر تھا تعمير مسجد سے مناہي کي ہوئي تھي اور اس سلسلے ميں جموںو کشمير حکومت نے پابندي عائد کر رکھي تھي۔ حکومت الاٹ شدہ پلاٹ کے بدلے دوسري جگہ اراضي دے رہي تھي۔ ليکن محلہ وقوع کے لحاظ سے جماعت کو وہ منظور نہيں تھي۔ اور جس جس جگہ جماعت نے بدلے ميں اراضي کي نشاندہي کي تھي۔ حکام اس ميں راضي نہيں تھے۔ لہذا معاملہ جوں کا توں سال ٹپکتا رہا ليکن خدا تعاليٰ کے نمائندہ خليفہ وقت نے ہمارے ايک خط پر يہ دعائيہ الفاظ بھيجے تھے کہ ’’مسجد ضرور بن جائے گي‘‘۔ چنانچہ تمام رکاوٹوں کے باوجود الاٹ شدہ جگہ پر ہي ايک وسيع و عريض خوبصورت مسجد بن گئي۔ اور خدا تعالي کے خليفہ کي بات پوري ہوگي فالحمدللہ علي فضلي و احسا نہ اس پرمستزاديہ کہ يہ اراضي اب جماعت کي ملکيت بھي بن گئي ہے۔ يہ سب کچھ اللہ تعالي کي تائيد و نصرت خاص کا ہي نتيجہ ہے ثمّ الحمدللہ۔

کشمير کے پُرآشوب اور ناگفتہ بہ حالات اورخليفہ وقت کي دعائيں

 رياست جموں و کشميرعموماً اور وادي کشميرخصوصاًجن حالات سے گزشتہ تين صديوں سے گزر رہي ہے يہ کسي سے پوشيدہ نہيں ہے ايسے حالات ميں ہر کسي کے ليے اپني کشتي زندگي کو محفوظ رکھنا ايک معجزہ سے کم نہ تھا۔ چاہے فرد ہو ںيا جميعت ہر کوئي پريشان تھا۔ اور نفسا نفسي کا عالم نظر آرہا تھا۔ انہي حالات ميں ديوبندي مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے احمديوں کے خلاف طوفان بد تميزي کھڑا کرديا۔ احمدي چکي کے دو پاٹوں کے درميان نظر آنے لگے حالات کي نزاکت کے پيش نظر محترم عبدالحميد صاحب ٹاک اور دوسرے ذمہ دار حضرات نے حضرت خليفة المسيح الرابع رحمہ اللہ تعاليٰ کي خدمت ميں درخواست دعا بھيجي۔ حضوررحمہ اللہ نے جواباً’’ في امان اللہ ‘‘کي دعاسے نوازا ۔ چنانچہ يہي دعا ڈھال بن گئي اور افراد جماعت بہت حد تک ہر لحاظ سے محفوظ و مامون رہے اور رہيں گے انشاءاللہ اللہ تعالي عوام الناس کے ساتھ افراد جماعت کو بھي ہميشہ اپنے حفظ و امان ميں رکھے آمين۔ يہ تو ہم احمديوں کے لئے خدا تعالي کا خاص فضل و احسان ہے کہ ہم خلافت کي نعمت سے سرفراز ہيں۔ اور يہي وجہ ہے کہ اللہ تعالي کي خاص تائيد و نصرت ہميشہ جماعت کے شامل حال رہتي ہے۔ پس ہمارا دعويٰ ہے کہ بِن خلافت اُمّتِ مسلمہ محفوظ و مامون نہيں ہے۔ اے کاش! مسلمان اس حقيقت کا ادراک کريں۔ خلافت ڈھال ہے اس کي اوٹ ميں محفوظ رہاجا سکتا ہے۔ نہ صرف اجتماعي طور پر بلکہ فردي طور پر بھي۔ جيسا کہ اللہ تعالي نےمحض اپنے فضل عظيم سے احقرکوبھي محفوظ رکھا۔ اور تمام رياست کے احمديوں کو بھي اللہ تعالي نے حفاظت فرمائي۔ فاالحمدللہ علي فضلہ وکرمہ

افراد جماعت کے بلند حوصلے اور بصيرت افروز واقعات

اور يہ سب کچھ خلافت کي دين ہے۔ رياست جموں و کشمير کے احمديوں کي عموما ًاور وادي کشمير کے احمديوں کي خصوصاً اگر بات کي جائے تو بيتے تين دہائيوں ميں جو ناقابل برداشت حالات پيدا ہوئے ان ميں جماعت خليفہ وقت کي رہنمائي ميں نہ صرف محفوظ و مامون رہي بلکہ ہر ميدان ميں آگے بھي بڑھتے رہے۔ ذالک فضل اللہ يوتيہ من يشاء وادي کشمير کے حالات جوں کے توں بنے ہوئے تھے کہ اسي دوران محترم مولانا محمد انعام صاحب غوري ناظر اعليٰ جو اس وقت ناظراصلاح و ارشاد کے عہدے پر فائز تھے۔ وادي کے دورے پر آئے تھے ان کے ساتھ مولانامرحوم سيد سرور صاحب ايڈيٹر صدر انجمن احمديہ قاديان بھي تھے۔ دونوں خاکسار کے مہمان مشن ہاؤس ميں موجود تھے اسي دوران ايک برقع پوش ڈائريکٹر جنرل آف پوليس کے دفتر کے گرد متعين سيکيورٹي کي پرواہ کيے بغيرصحن مسجد ميں داخل ہو کر مشن ہاؤس تک پہنچنے ميں کامياب ہوا اورخاکسارسےملنے کي خواہش کي۔ خاکسار نےکمرے سے باہر آ کر عليک سليک کےبعد آنے کي وجہ پوچھي۔ وہ مصررہے کہ کمرے کے اندر بات کريں گے۔ ميں نے کہا اندر مہمان بيٹھے ہيں لہذا جو کچھ کہنا ہے يہي کہہ لو ليکن اس نے جب ديکھا کہ بات بنتے نظر نہيں آئي وہ مايوس سا موڑ بنا کر خاکسار کو گھورتے ہوئے واپس چلديا۔ وہ ابھي باہر گيا ہي ہوگا کي سي آئي ڈي محکمے کے آدمي باہر موجود افراد سے محو گفتگوہوئے اور انکشاف کيا کہ برقع پوش عورت نہيں مرد تھا اور ان کي اطلاع کے مطابق اور پستول اور گرينيٹ سے ليس تھا۔ اور وہ بد ارادے سے آيا تھا۔اس طرح اللہ تعاليٰ نے مہمان کرام کي برکت سے اس کو کوئي نقصان پہنچانے کا موقع نہ مل سکا۔ دراصل کچھ عرصہ قبل ہم سے ملنے والے ايک مخلص نوجوان مسمي محبوب الہي خان کو ان کي دکان کے اندردن دھاڈے کسي نامعلوم فرد نے گولي کا شکار بنا کر مار ڈالا تھا۔ محبوب صاحب لاہوري پارٹي سے تعلق رکھتا تھا اب ان کا نشانہ خاکسار کي ذات تھي ايسا محکمہ سي آئي ڈي کي ہي رپورٹ تھي۔ اللہ تعالي نے محض اپنے فضل سے نہ صرف اس موقع پر بلکہ اور بہت سارے ايسے موقعوں پر خاکسارکي محض اپنے فضل سے دستگيري فرمائي فالحمداللہ عليٰ احسانہ

ہر قدم پر مولا کريم کا ساتھ

اللہ تعالي کي غير معمولي تائيد و نصرت کا اس سے زيادہ اور کيا ثبوت ہو سکتا ہے کہ اس نے ہر قدم پر خاکسار کو کاميابي سے ہمکنار کرديا۔ مجھے يہ کہنے ميں فخر ہے کہ جو اقدامات احقر نے حسب ارشادبزرگان سلسلہ اٹھائے ان ميں افراد جماعت سرينگرکا خصوصاًاور وادي کشميرکے افراد جماعت مع کارکنان سلسلہ کا عموماً دست تعاون حاصل رہا ہے۔ بلکہ يوں کہنا صحيح ہوگا کہ ان کي رہبري رہنمائي اور ہمدردانہ مشوروں کا بہت زيادہ دخل رہا ہے۔ يہي وجہ ہے کہ نہ صرف خدام الاحمديہ بلکہ انصاراللہ اورلجنہ امااللہ کي تنظيميں بہت زيادہ متحرک تھيں۔ اکتوبر2006 ءکي اگر ايک ہي مثال لے يعني حضرت صاحبزادہ مرزا وسيم احمد صاحب کے آخري دورے پر نہ صرف خدام الاحمديہ کا بلکہ پوري جماعتوں کےمردو زن کااخلاص اور فدائيت ديکھنے سے ہي بنتي تھي۔ يہي صورتحال پوري رياست کي تھي اور اب بھي ہے۔ الحمدللہ اس وقت رياست ميں چھ احمديہ پبلک اسکول کاميابي سے چل رہے ہيں۔ سرينگر ميں مساجد اور قبرستان جيسے اہم سہوليات موجود ہيں۔ انفرادي اور محلہ وار احباب نظام جماعت سے منسلک ہيں۔

ممبئي ميں بھي اللہ تعالي نے وہاں کے مخلص افراد جماعت کے تعاون سے قابل تحسين کام کرنے کي توفيق دي۔ تربيتي و تبليغي کام ہوئے ۔کانفرنسوں کي شروعات ہوئي تھي اور 13/14 اکتوبر 1979 ءکو عظيم الشان کانفرنس کا انعقاد کرانے کي توفيق اللہ تعالي نے دي تھي۔ کانفرنس کے موقع پر ڈپٹي پرائم منسٹراورہوم منسٹردہلي فائنانس منسٹر دہلي۔ ہيلتھ ايڈوائزرمنسٹر دہلي آ کر ليکچر اور اليکشن سنٹردہلي ۔ چيف منسٹر مہاراشٹرا۔لا ءمنسٹرسٹر مہاراشٹر کے پيغامات آئے۔ ريڈيو اور ٹي وي نے خبريں نشر کيں۔ اخبارات ميں خبريں ديں۔ جناب آرکے کرنجيا۔ ايڈيٹربلٹزنے يو پيغام بھيجا۔

’’اسلام کو اس کے حقيقي روپ ميں دنيا کے سامنے پيش کرنے ميں آپ کي جماعت کو جو شہرت حاصل ہے اس سےميں اچھي طرح واقف ہوں۔ اس طرح اس جماعت کے امن بخش تعليمات اور تعميري نقطہ نگاہ سے بھي آگاہ ہوں جو ہندوستان جيسے ملک ميں مختلف مذاہب کے پيروکاروں کے درميان ہم آہنگي کو فروغ دينے کے ليے ايک بہترين ذريعہ ہے اور اس کے ساتھ قومي يکجہتي کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔ يہي وہ روح ہے۔ جس کي بنا پر ميں آپ کي اس کانفرنس کا خير مقدم کرتا ہوں  ‘‘

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)