آنحضرت ﷺ کا اعلیٰ و ارفع مقام حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات کی روشنی میں

ریحان احمد شیخ مربی سلسلہ شعبہ تاریخ قادیان

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(الاحزاب: 57)

یقینا اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم بھی اس پر درود اور خوب خوب سلام بھیجو۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔اَللّٰھُمّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ (ترمذی کتاب الصلاۃ باب ماجاء فی صفۃ الصلاۃ علی النبی ﷺ)

اے اللہ !محمد ﷺپر محمدؐ کی آل پر درود بھیج جیساکہ تو نے حضرت ابراہیم اور ابراہیم کی آل پردرود بھیجا۔ تو بہت ہی حمد والا اور بزرگی والاہے۔ اے اللہ !محمدؐپر اورمحمد ؐکی آل پر برکتیں بھیج جیسا کہ تو نے حضرت ابراہیم پر اور حضرت ابراہیم کی آل پر برکتیں بھیجیں۔ تو بہت ہی حمد والا اور بزرگی والاہے۔

قارئین کرام !حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے کا دعویٰ کیا اُس وقت سے لے کر آج تک مخالفین احمدیت یا نام نہاد علماء آپ پر بہت سے اعتراضات اورالزامات لگاتے چلے آرہے ہیں۔ عامۃالناس کو گمراہ کرنے کی یہ انکی عادت قدیمہ ہے۔ اور سب سے بڑا الزام مسلمانوں کے جذبات کوبھڑکانے اور انہیں انگیخت کرنے کے لئے یہ لگاتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آپ کو نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا سمجھتے ہیں۔ یہ علماء سو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعودؑ  کی بعض تحریرات کو توڑ مروڑ کر بیان کرتے ہیںتا انکو آنحضرت ﷺ کی شان اورعزت کے برخلاف سمجھا جائے۔لیکن سعید فطرت لوگ حضرت مسیح موعودؑ  کی اصل تحریرات کو پڑھتے ہیں اورانکو حضورﷺ کی مدح ثنا سے معمور پاتےہیں۔ فی الحقیقت آپ کا منثور ومنظوم کلام حضرت خاتم النبیین کی تعریف و توصیف سے اس قدرمعمور ہے کہ خداکے فرشتے بھی اس پر رشک کرتے ہیں ۔آپؑ  کیا ہی خوب فرماتے ہیں کہ

آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام

مدح میں تیری و ہ گاتے ہیں جو گایا ہم نے

اس وقت خاکسار آپؑ کی کتب سے چند چیدہ اقتباسات ہدیہ قارئین کرےگا جن سےآپ کے نزدیک آنحضرتﷺ کی ارفع واعلیٰ شان کا اندازہ ہوتاہے۔ یہ کتابیں مختلف وقتوں اورادوار میں تصنیف ہوئیں ۔ان اقتباسات سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتاہے کہ آپؑ زندگی کے ہر دور میں آنحضرت ؐ کے عاشق اور مدّاح رہے ہیں۔ 1892-93ء کی تصنیف ’آئینہ کمالات اسلام‘ ہے جو روحانی خزائن کی جلد پانچ میں ہے۔ اس کے دو حصّے ہیں۔ اردو اور عربی حصہ ہے۔ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ:

’’وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو وہ ملائک میں نہیں تھا نجوم میں نہیں تھا قمر میں نہیں تھا آفتاب میں بھی نہیں تھا وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا۔ وہ لعل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء سید الاحیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ سو وہ نور اس انسان کو دیا گیا۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 160، روحانی خزائن کی جلد5)

پھر 1907ء کی آپ ؑکی تصنیف ’حقیقۃ الوحی‘ ہے۔ اس میں آپ نے فرمایا کہ:

’’پس مَیں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے (ہزار ہزار درود اور سلام اس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے۔ اس کے عالی مقام کا انتہا ءمعلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیساحق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا۔ اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی اس لئے خدانے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اوّلین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں۔ وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعوی کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذریتِ شیطان ہے۔ کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے۔ جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے۔ ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے۔ ہم کافر نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اُس کا چہرہ دیکھتے ہیں اِسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے۔ اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں۔‘‘

(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ119-118)

براہین احمدیہ حصہ چہارم میں فرماتے ہیں:۔

’’اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر الناس ہیں جن کی پیروی سے خدائے تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پردے اٹھتے ہیں اور اسی جہان میں سچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور قرآن شریف جو سچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے جس کے ذریعہ سے حقانی علوم اور معارف حاصل ہوتے ہیں اور بشری آلودگیوں سے دل پاک ہوتا ہے اور انسان جہل اور غفلت اور شبہات کے حجابوں سے نجات پاکر حق الیقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 558-557 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)

پھر 1886ء میں اپنی تصنیف سرمہ چشمِ آریہ میں آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ:

’’غرض وحی الٰہی ایک ایسا آئینہ ہے جس میں خدائے تعالیٰ کی صفات کمالیہ کا چہرہ حسب صفائی باطن نبی منزل علیہ کے نظر آتا ہے‘‘۔ اور وہ سینہ اور دل جو تمام اوّلین و آخرین کے سینہ و دل سے فراخ تر و پاک تر و معصوم تر و روشن تر تھا وہ اسی لائق ٹھہرا کہ اس پر ایسی وحی نازل ہو کہ جو تمام اولین و آخرین کی وحیوں سے اقویٰ و اکمل و ارفع و اتم ہوکر صفات الٰہیہ کے دکھلانے کے لئے ایک نہایت صاف اور کشادہ اور وسیع آئینہ ہو‘‘۔ (سرمہ چشم آریہ روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 71 حاشیہ)

 روحانی خزائن جلد 8 ’اتمام الحجۃ‘ میں آپ فرماتے ہیں کہ:

’’وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء، امام الاصفیاء، ختم المرسلین، فخر النبیین، جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اے پیارے خدا اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتدائِ دنیا سے تُو نے کسی پر نہ بھیجا ہو۔ اگر یہ عظیم الشان نبی دنیا میں نہ آتا تو پھر جس قدر چھوٹے چھوٹے نبی دنیا میں آئے جیسا کہ یونس اور ایوب اور مسیح بن مریم اور ملاکی اور یحيٰ اور ذکریا وغیرہ وغیرہ ان کی سچائی پر ہمارے پاس کوئی بھی دلیل نہیں تھی اگرچہ سب مقرب اور وجیہ اور خداتعالیٰ کے پیارے تھے۔ یہ اُس نبی کا احسان ہے کہ یہ لوگ بھی دنیا میں سچے سمجھے گئے۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ بَارِکْ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ۔‘‘

(اتمام الحجۃ۔ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ308)

پھر 1898ء کی آپ کی تصنیف ہے ’کتاب البریہ‘۔ اس میں آپ ایک جگہ فرماتے ہیں:

’’ہمارے نبی ؐکے نشان اور معجزات دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو آنجناب کے ہاتھ سے یا آپ کے قول یا آپ کے فعل یا آپ کی دعا سے ظہور میں آئے اور ایسے معجزات شمار کے رو سے قریب تین ہزار کے ہیں۔ اور دوسرے وہ معجزات ہیں جو آنجناب کی امّت کے ذریعہ سے ہمیشہ ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور ایسے نشانوں کی لاکھوں تک نوبت پہنچ گئی ہے اور ایسی کوئی صدی بھی نہیں گذری جس میں ایسے نشان ظہور میں نہ آئے ہوں۔ چنانچہ اس زمانہ میں اس عاجز کے ذریعہ سے خداتعالیٰ یہ نشان دکھلا رہا ہے۔ ان تمام نشانوں سے جن کا سلسلہ کسی زمانہ میں منقطع نہیں ہوتا۔ ہم یقیناجانتے ہیں کہ خداتعالیٰ کا سب سے بڑا نبی اور سب سے زیادہ پیارا جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کیونکہ دوسرے نبیوں کی اُمّتیں ایک تاریکی میں پڑی ہوئی ہیں اور صرف گذشتہ قصے اور کہانیاں ان کے پاس ہیں مگر یہ اُمّت ہمیشہ خداتعالیٰ سے تازہ بتازہ نشان پاتی ہے۔ لہٰذا اس اُمّت میں اکثر عارف ایسے پائے جاتے ہیں کہ جو خداتعالیٰ پر اس درجہ کا یقین رکھتے ہیں کہ گویا اس کو دیکھتے ہیں۔ اور دوسری قوموں کو خداتعالیٰ کی نسبت یہ یقین نصیب نہیں۔ لہٰذا ہماری روح سے یہ گواہی نکلتی ہے کہ سچا اور صحیح مذہب صرف اسلام ہے۔ ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کچھ نہیں دیکھا۔ اگر قرآن شریف گواہی نہ دیتا تو ہمارے لئے اور ہر ایک محقق کے لئے ممکن نہ تھا کہ ان کو سچا نبی سمجھتا کیونکہ جب کسی مذہب میں صرف قصے اور کہانیاں رہ جاتی ہیں تو اس مذہب کے بانی یا مقتدا کی سچائی صرف ان قصوں پر نظر کر کے تحقیقی طور پر ثابت نہیں ہو سکتی۔ وجہ یہ کہ صدہا برس کے گذشتہ قصے کذب کابھی احتمال رکھتے ہیں بلکہ زیادہ تر احتمال یہی ہوتا ہے کیونکہ دنیا میں جھوٹ زیادہ ہے۔ پھر کیونکر دلی یقین سے ان قصوں کو واقعات صحیحہ مان لیا جائے۔ لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات صرف قصوں کے رنگ میں نہیں ہیں بلکہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر کے خود ان نشانوں کو پالیتے ہیں۔ لہٰذا معائنہ اور مشاہدہ کی برکت سے ہم حق الیقین تک پہنچ جاتے ہیں۔ سو اس کامل اور مقدس نبی کی کس قدر شان بزرگ ہے جس کی نبوت ہمیشہ طالبوں کو تازہ ثبوت دکھلاتی رہتی ہے۔ اور ہم متواتر نشانوں کی برکت سے اس کمال سے مراتب عالیہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ گویا خداتعالیٰ کو ہم آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں۔ پس مذہب اسے کہتے ہیں اور سچا نبی اس کا نام ہے جس کی سچائی کی ہمیشہ تازہ بہار نظر آئے۔ محض قصوں پر جن میں ہزاروں طرح کی کمی بیشی کا امکان ہے بھروسہ کرلینا عقلمندوں کا کام نہیں ہے۔ دنیا میں صدہا لوگ خدا بنائے گئے۔ اور صدہا پرانے افسانوں کے ذریعہ سے کراما تی کر کے مانے جاتے ہیں۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ سچا کراماتی وہی ہے جس کی کرامات کا دریا کبھی خشک نہ ہو۔ سو وہ شخص ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ خداتعالیٰ نے ہر ایک زمانہ میں اس کامل اور مقدس کے نشان دکھلانے کے لئے کسی نہ کسی کو بھیجا ہے اور اس زمانہ میں مسیح موعود کے نام سے مجھے بھیجا ہے۔ دیکھو آسمان سے نشان ظاہر ہو رہے ہیں اور طرح طرح کے خوارق ظہور میں آ رہے ہیں اور ہر ایک حق کا طالب ہمارے پاس رہ کر نشانوں کو دیکھ سکتا ہے گو وہ عیسائی ہو یا یہودی یا آریہ۔ یہ سب برکات ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں۔‘‘

(کتاب البریہ۔ روحانی خزائن جلد13صفحہ 154تا 157حاشیہ)

پھر پیغام صلح میں فرماتے ہیں:

’جو لوگ ناحق خدا سے بے خوف ہوکر ہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کو برے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجناب پر ناپاک تہمتیں لگاتے اور بدزبانی سے باز نہیں آتے ان سے ہم کیونکر صلح کریں۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کرسکتے ہیں، لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کرسکتے جو ہمارے پیارے نبی پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے ناپاک حملے کرتے ہیں۔ خدا ہمیں اسلام پر موت دے ہم ایساکام کرنا نہیں چاہتے جس میں ایمان جاتا رہے۔ ‘

(پیغام صلح صفحہ 30)

پھر 1902ء کی اپنی تصنیف ’کشتی نوح‘ میں آپ فرماتے ہیں:

’’نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی ؐ سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ۔ اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے۔ نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد ؐ اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے۔ اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے‘‘۔

(کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد 19صفحہ14-13)

تبلیغ رسالت میں فرماتے ہیں:

’’اگر کسی نبی کی فضیلت اس کے اُن کاموں سے ثابت ہوسکتی ہے جن سے بنی نوع کی سچی ہمدردی سب نبیوں سے بڑھ کر ظاہر ہو تو اے سب لوگو! اُٹھو اور گواہی دو کہ اس صفت میں محمد ﷺ کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں … اندھے مخلوق پرستوں نے اس بزرگ رسول ؐ کو شناخت نہیں کیا جس نے ہزاروں نمونے سچی ہمدردی کے دکھلائے۔ لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ وہ وقت پہنچ گیا ہے۔ کہ یہ پاک رسولؐ شناخت کیا جائے چاہو تو میری بات لکھ رکھو۔۔ ۔ اے سننے والو! سنو! اور سوچنے والو! سوچو اور یاد رکھو کہ حق ظاہر ہوگا اور وہ جو سچا نور ہے چمکے گا۔ ‘‘

(تبلیغ رسالت جلد ششم صفحہ 10,11)

پھر 1905ء کی اپنی تصنیف ’براہین احمدیہ‘ جلد پنجم میں آپ فرماتے ہیں کہ:’’ہزار ہزار شکر اس خداوند کریم کا ہے جس نے ایسا مذہب ہمیں عطا فرمایا جو خدادانی اور خدا ترسی کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس کی نظیر کبھی اور کسی زمانہ میں نہیں پائی گئی۔ اور ہزارہادروداس نبی معصوم پر جس کے وسیلہ سے ہم اس پاک مذہب میں داخل ہوئے۔ اور ہزارہا رحمتیں نبی کریمؐ کے اصحاب پر ہوں جنہوں نے اپنے خونوں سے اِس باغ کی آب پاشی کی‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد 21صفحہ25)

پھر ’حقیقۃ الوحی‘ میں ہی آپ فرماتے ہیں کہ:

’’اب اس تمام بیان سے ہماری غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا کسی کے ساتھ پیار کرنا اس بات سے مشروط کیا ہے کہ ایسا شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرے۔ چنانچہ میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچے دل سے پیروی کرنا اور آپ سے محبت رکھنا انجام کار انسان کو خدا کا پیارا بنا دیتا ہے۔ اس طرح پر کہ خود اس کے دل میں محبت الٰہی کی ایک سوزش پیدا کر دیتا ہے۔ تب ایسا شخص ہر ایک چیز سے دل برداشتہ ہو کر خدا کی طرف جھک جاتا ہے اور اس کا انس و شوق صرف خدا تعالیٰ سے باقی رہ جاتا ہے تب محبت الٰہی کی ایک خاص تجلی اس پر پڑتی ہے اور اس کو ایک پورا رنگ عشق اور محبت کا دے کر قوی جذبہ کے ساتھ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ تب جذبات نفسانیہ پر وہ غالب آجاتا ہے اور اس کی تائید اور نصرت میں ہر ایک پہلو سے خدا تعالیٰ کے خارق عادت افعال نشانوں کے رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں۔‘‘

(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22ص68-67)

پھر ’حقیقۃ الوحی‘ میں ہی آپ فرماتے ہیں:

’’سو مَیں نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی۔ اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر مَیں اپنے سید و مولیٰ فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے راہوں کی پیروی نہ کرتا۔ سو میں نے جو کچھ پایا۔ اس پیروی سے پایا اور میں اپنے سچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفت کاملہ کا حصہ پا سکتا ہے۔ اور میں اس جگہ یہ بھی بتلاتا ہوں کہ وہ کیا چیز ہے کہ سچی اور کامل پیروی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب باتوں سے پہلے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ سو یاد رہے کہ وہ قلبِ سلیم ہے یعنی دل سے دنیا کی محبت نکل جاتی ہے اور دل ایک ابدی اور لازوال لذت کا طالب ہو جاتا ہے۔ پھر بعد اس کے ایک مصفّیٰ اور کامل محبت الٰہی بباعث اس قلبِ سلیم کے حاصل ہوتی ہے اور یہ سب نعمتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے بطور وراثت ملتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی خود فرماتا ہے۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ (آل عمران: 32) یعنی ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ65-64)

پھر 1908ء کی اپنی تصنیف ’چشمہ معرفت‘ میں آپ فرماتے ہیں کہ:

’’دنیا میں کروڑہا  ایسے پاک فطرت گزرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے لیکن ہم نے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مرد خدا کو پایا ہے جس کانام ہے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔ اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (الاحزاب: 57) ان قوموں کے بزرگوں کا ذکر تو جانے دو جن کا حال قرآن شریف میں تفصیل سے بیان نہیں کیا گیا صرف ہم ان نبیوں کی نسبت اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں جن کاذکر قرآن شریف میں ہے۔ جیسے حضرت موسیٰ حضرت داؤد حضرت عیسیٰ علیہم السلام اور دوسرے انبیاء سو ہم خدا کی قسم کھاکر کہتے ہیں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں نہ آتے اور قرآن شریف نازل نہ ہوتا اور وہ برکات ہم بچشم خودنہ دیکھتے جو ہم نے دیکھ لئے تو ان تمام گذشتہ انبیاء کا صدق ہم پر مشتبہ رہ جاتا کیونکہ صرف قصوں سے کوئی حقیقت حاصل نہیں ہوسکتی اور ممکن ہے کہ وہ قصے صحیح نہ ہوں اور ممکن ہے کہ و ہ تمام معجزات جو اُن کی طرف منسوب کئے گئے ہیں وہ سب مبالغات ہوں کیونکہ اب ان کا نام و نشان نہیں بلکہ ان گزشتہ کتابوں سے تو خدا کا پتہ بھی نہیں لگتا اور یقیناًسمجھ نہیں سکتے کہ خدا بھی انسان سے ہم کلا م ہوتا ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے یہ سب قصے حقیقت کے رنگ میں آگئے۔ اب ہم نہ قال کے طور پر بلکہ حال کے طور پر اس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ مکالمہ الٰہیہ کیا چیز ہوتا ہے اور خدا کے نشان کس طرح ظاہر ہوتے ہیں اور کس طرح دعائیں قبول ہو جاتی ہیں اور یہ سب کچھ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے پایا اور جو کچھ قصّوں کے طور پر غیر قومیں بیان کرتی ہیں وہ سب کچھ ہم نے دیکھ لیا۔ پس ہم نے ایک ایسے نبی کا دامن پکڑا ہے جو خدا نما ہے۔ کسی نے یہ شعر بہت ہی اچھا کہا ہے:

محمدؐ عربی بادشاہ ہر دوسرا

کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی

اسے خدا تو نہیں کہہ سکوں پہ کہتا ہوں

کہ اس کی مرتبہ دانی میں ہے خدادانی

ہم کس زبان سے خدا کا شکرکریں جس نے ایسے نبی کی پیروی ہمیں نصیب کی جو سعیدوں کی ارواح کے لئے آفتاب ہے جیسے اجسام کے لئے سورج۔ وہ اندھیرے کے وقت ظاہر ہوا اور دنیا کو اپنی روشنی سے روشن کردیا۔ وہ نہ تھکانہ ماندہ ہوا جب تک کہ عرب کے تمام حصہ کو شرک سے پاک نہ کردیا۔ وہ اپنی سچائی کی آپ دلیل ہے کیونکہ اس کا نور ہر ایک زمانہ میں موجود ہے اور اس کی سچی پیروی انسان کو یوں پاک کرتی ہے کہ جیسا ایک صاف اور شفاف دریا کا پانی میلے کپڑے کو۔ کون صدق دل سے ہمارے پاس آیا جس نے اس نور کا مشاہدہ نہ کیا اور کس نے صحت نیت سے اس دروازہ کو کھٹکھٹا یا جو اس کے لئے کھولا نہ گیا لیکن افسوس کہ اکثر انسانوں کی یہی عادت ہے کہ وہ سفلی زندگی کو پسند کر لیتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ نور ان کے اندر داخل ہو۔‘‘

(چشمہ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 301تا 303)

پھر ’چشمہ معرفت‘ میں ہی آپ فرماتے ہیں کہ:

’’اب سوچنا چاہئے کہ کیا یہ عزت، کیا یہ شوکت، کیا یہ اقبال، کیا یہ جلال، کیا یہ ہزاروں نشان آسمانی، کیا یہ ہزاروں برکات ربّانی جھوٹے کو بھی مل سکتی ہیں۔ ہمیں بڑا فخر ہے کہ جس نبی علیہ السلام کا ہم نے دامن پکڑا ہے خدا کا اس پر بڑا ہی فضل ہے۔ وہ خدا تو نہیں مگر اس کے ذریعہ سے ہم نے خدا کو دیکھ لیا ہے۔ اس کا مذہب جو ہمیں ملا ہے خدا کی طاقتوں کا آئینہ ہے۔ اگر اسلام نہ ہوتا تو اس زمانہ میں اس بات کا سمجھنا محال تھاکہ نبوت کیا چیز ہے اور کیا معجزات بھی ممکنات میں سے ہیں اور کیا وہ قانون قدرت میں داخل ہیں۔ اس عقدے کو اُسی نبی کے دائمی فیض نے حل کیا اور اسی کے طفیل سے اب ہم دوسری قوموں کی طرح صرف قصہ گو نہیں ہیں بلکہ خدا کا نو ر اور خدا کی آسمانی نصرت ہمارے شامل حال ہے۔ ہم کیا چیز ہیں جو اس شکر کو ادا کر سکیں کہ وہ خدا جو دوسروں پر مخفی ہے اور وہ پوشیدہ طاقت جو دوسروں سے نہاں در نہاں ہے۔ وہ ذوالجلال خدا محض اس نبی کریم کے ذریعہ سے ہم پر ظاہر ہوگیا۔‘‘

(چشمہ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 381)

پس یہ مقام آپ علیہ السلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کا بیان فرما رہے ہیں اور یہ جو آپ پر الزام ہے کہ آپ نعوذ باللہ دوسرے مسلمانوں کو مسلمان نہیں سمجھتے۔ تو آپ فرما رہے ہیں کہ صرف احمدی نہیں بلکہ تمام دنیا کے مسلمان جو ہیں وہ آپ کی غلامی میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ پس یہ مقام و مرتبہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سمجھا اور دنیا کو بتایا اور اپنے ماننے والوں کو اس کا ادراک عطا فرمایا۔

اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے والے نہ ہوتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اور فضیلت اور ارفع مقام کی گہرائی کو ہم کبھی نہ جان سکتے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان مفاد پرستوں کے چنگل سے اُمّت مسلمہ کو بچائے اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو ماننے والے ہوں اور یہی ایک طریقہ ہے اور یہی ایک ذریعہ ہے جو اُمّتِ مسلمہ کی عظمت کو دوبارہ قائم کر سکتا ہے۔  اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب و ارشادات پڑھنے اور انہیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)