حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تصنیفات اور تبلیغ اسلام

محمد شریف کوثر استاد جامعہ احمدیہ قادیان

1857ء میں جو جنگ لڑی گئی، اُس میں مسلمانوں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا، مغلیہ بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کر کے رنگون (برما) بھیج دیا گیا، اور انگریز لال قلعہ پر قابض ہو کر ہندوستان پر حکمرانی کرنے لگے۔ حکومتی نظام کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی یہ کوشش تھی کہ ہندوستان کی مکمل آبادی، یا کم از کم اکثریت کو عیسائی بنا لیا جائے، اور اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے وہ سب کچھ کیا جو اُن کے بس میں تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں کتب،اور لاکھوں کی تعداد میں اشتہارات تقسیم کئے گئے، جن کے ذریعہ عیسائیت کی تبلیغ کی جاتی تھی، عیسائیوں کے نزدیک عیسائیت کی تبلیغ کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ ’’اسلام‘‘ تھا، چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کو اسلام سے بدظن کرنے کے لئے اسلام اور بانی اسلام ﷺ پر اعتراضات کی یلغار کر دی۔ اور انہوں نے جو بھی اعتراضات شائع کئے وہ مسلمانوں کی کتابوں میں مذکور مشکوک اور مبہم روایات کی بنا پر کئے، بایں وجہ مسلمان اعتراضات کے جوابات دینے سے قاصر وعاجز تھے۔

دوسرا حربہ جو عیسائی مشنری اور پادریوں نے اختیار کیا وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو کہتے تمہارا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیؑ آسمان پر زندہ موجود ہیں، اور آخری زمانہ میں نازل ہوں گے، جب تم اُن کے نزول کے بعد ان پر ایمان لاؤگے، تو مناسب یہ ہے کہ ابھی ایمان لے آؤ، تا اُن کی خوشنودی حاصل کر سکو۔

مسلمانوں کے پاس اس اعتراض کا بھی کوئی جواب نہ تھا۔ مسلمان عیسائی مشنریوں کے اعتراضات کے سامنے بے بس ہو کر عیسائیت کی طرف مائل ہونے لگے، اور مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد عیسائی بن گئی۔ بڑے بڑے علماء عیسائی بن گئے۔ جن میں عبد اللہ آتھم اور عماد الدین وغیرہ کے نام مشہور ہیں۔ اُس وقت کے انگریز وزیر اعظم نے ایک موقعہ پر اعلان کیا کہ:

’’میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب اپنے مقصد میں متحد ہیں۔ یہ ہمارا فرض ہی نہیں بلکہ خود ہمارا مفاد بھی اس امر سے وابستہ ہے کہ ہم عیسائیت کی تبلیغ کو جہاں تک بھی ہو سکے فروغ دیں اور ہندوستان کے کونے کونے میں اس کو پھیلا دیں۔‘‘

(the mission by R. Clark, 1904, p234, London)

ایک طرف عیسائیوں کی یلغار تھی تو دوسری طرف برہمو سماج اور آریہ سماج نے اسلام کو اپنے اعتراضات کا نشانہ بنایا ہوا تھا اور اسلام اُس کشتی کی طرح تھا جو بھنور میں پھنسی ہوئی ہو۔

مسلمان اپنی پسپائی اور شکست کا اعتراف کر چکے تھے، اُس زمانے میں مسلمانوں کے مشہور شاعر الطاف حسین حالی 1879 میں یہ اعلان کر رہے تھے کہ:

رہا دین باقی نہ اسلام باقی

اِک اسلام کا رہ گیا نام باقی

پھر ’’اسلام‘‘ کو ایک باغ سے تشبیہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

پھر اِک باغ دیکھے گا اُجڑا سراسر

جہاں خاک اڑی ہے ہر سُو برابر

براہین احمدیہ کی اشاعت کے ذریعہ تبلیغ اسلام:

جب مسلمانوں اور اسلام کی ایسی نازک حالت ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام (1908-1835) کو تبلیغ اسلام اور اسکی اشاعت کے لئے بھیجا۔ ذو القرنین زمانہ نے تیرھویں صدی ہجری کے آخر اور چودھویں صدی ہجری کے شروع میں براہین احمدیہ کے چار حصے تصنیف فرمائے جن میں مخالفین اسلام کے اعتراضات کے جوابات دیئے۔ آپؑ نے براہین احمدیہ میں قرآن مجید کا اللہ کی کتاب ہونا اور اس کا بے نظیر ہونا ثابت کیا اور اسی طرح سیدنا محمد ﷺ کی نبوت کو ناقابل تردید دلائل کے ذریعہ سے ثابت کیا نیز آپؑ نے تحریر فرمایا کہ:

’’میں جو مصنف اس کتاب براہین احمدیہ کا ہوں یہ اشتہار اپنیؔ طرف سے بوعدہ انعام دس ہزار روپیہ بمقابلہ جمیع اربابِ مذہب اور ملت کے جو حقانیت فرقان مجید اور نبوت حضرت محمدؔ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے منکر ہیں اتماماً للحُجّۃ شائع کرکے اقرار صحیح قانونی اور عہد جائز شرعی کرتا ہوں کہ اگر کوئی صاحبؔ منکرین میں سے مشارکت اپنی کتاب کی فرقان مجید سے اُن سب براہین اور دلائل میں جو ہمؔ نے دربارہ حقیت فرقان مجید اور صدقِ رسالت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اُسی کتاب مقدس سے اخذ کرؔکے تحریرکیں ہیں اپنی الہامی کتاب میں سے ثابت کرکے دکھلاوے یا اگر تعداد میں ان کے برابر پیش نہ کرسکے تو نصفؔ اِن سے یا ثلث ان سے یا ربع ان سے یا خمس ان سے نکال کر پیش کرے یا اگر بکلی پیش کرنے سے عاجز ہو تو ہمارے ہیؔ دلائل کو نمبروار توڑ دے تو ان سب صورتوں میں بشرطیکہ تین منصف مقبولۂ فریقین بالاتفاق یہ رائے ظاہرکر دیںکہؔ ایفاء شرط کہ چاہئے تھا ظہور میں آگیا میں مشتہر ایسے مجیب کو بلا  عذرے وحیلتے اپنی جائیداد قیمتی دس ہزار روپیہ پر قبض و دخل دے دوں گا۔ ‘‘(روحانی خزائن، جلد نمبر ۱، براہین احمدیہ حصہ اول صفحہ ۲۸)

اسلام کی تبلیغ کے لحاظ سے یہ کتاب عدیم المثال تھی۔ اور اس کا اعتراف اہل حدیث کے عالم مولوی محمد حسین بٹالوی نے درج ذیل الفاظ میں کیا:

’’ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالات کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی‘‘

(اشاعت السنہ جلد ۶، صفحہ نمبر ۷)

قرآن کریم کی سورت کہف میں ذکر ہے کہ ذو القرنین نے یاجوج ماجوج کے فتنوں سے بچنے کے لئے ایک ’سد‘ یعنی دیوار بنائی تھی۔ وہ مادی دیوار تو زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکی مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بنائی ہوئی یہ سد اب تک قائم ہے اور قائم رہے گی اور کوئی اس کی نظیر نہ لا سکے گا۔ تبلیغ اسلام اور اسکی اشاعت کے لئے یہ ایک زبردست کتاب ہے جس کے ذریعہ سے ہر زمانہ میں تبلیغ اسلام ہوتی چلی جائے گی۔

اسلامی اصول کی فلاسفی کے ذریعہ تبلیغ اسلام:

دوسری اہم تصنیف جس نے تبلیغ اسلام اور اشاعت اسلام کے سلسلے میں اہم کردار ادا کیا وہ اسلامی اصول کی فلاسفی ہے۔ اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پانچ سوالات پر مشتمل ایک خطاب تحریر فرمایااللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کو قبل ازیں یہ خوشخبری دی تھی کہ آپ کا مضمون تمام مضامین سے بالا رہے گا۔چنانچہ حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ نے 27اور 29 دسمبر 1896ء کو جلسہ مذاہب عالم لاہور میں پڑھ کر سنایا، انہی پانچ سوالوں کے جوابات دوسرے مذاہب کے نمائندگان نے بھی دیئے مگر سب نے یہ تسلیم کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مضمون تمام مذاہب کے نمائندگان سے اعلی وبالا رہا۔ اس وقت ہندوستان کے قریبا تمام اردو اورا نگریزی اخبارات نے اقرار کیا کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب (علیہ السلام) کا مضمون سب مضامین پر فوقیت لے گیا اور اس کے ذریعہ سے ہر طبقے میں اسلام کا پیغام پہنچا۔

تبلیغ اسلام بذریعہ تصنیف لطیف مسیح ہندوستان میں:

 اسلام کی تبلیغ اور اسکی اشاعت میں اہم کردار ادا کیا حضرت مسیح موعود ؑکی کتاب ’’مسیح ہندوستان میں‘‘ حضور علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے الہام پاکر یہ اعلان فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام ہرگز آسمان پر نہیں گئے بلکہ زمین پر ہی فوت ہوئے، حضورؑ نے موجودہ اناجیل سے یہ ثابت کیا کہ حضرت عیسیؑ کو صلیب پر چڑھایا گیا لیکن موت صلیب پر واقع نہیں ہوئی اور وہ یہود کے ہاتھوں سے ستائے گئے۔ اور پھر بنی اسرائیل کے قبائل کی تلاش میں شام، عراق، ایران ہوتے ہوئے کشمیر پہنچے اور بنی اسرائیل کو پیغام پہنچانے کے بعد وہاں فوت ہوئے اور کشمیر کے مشہور شہر سرینگر کے محلہ خانیار میں اب تک انکی قبر موجود ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تحقیق نے کسر صلیب کا حق ادا کیا اور عیسائیوں کی تبلیغ اسکی وجہ سے متأثر ہوئی اور یوں کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ اس تصنیف نے عیسائی عقائد کی کمر توڑ کے رکھ دی۔ بعد ازاں اس کتاب کا اور بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہوا جسکی وجہ سے مسلمانوں اور عیسائیوں کے اس عقیدہ کی تردید ہوئی کہ عیسیٰ علیہ السلام نہ تو زندہ آسمان پر موجود ہیں اورنہ ہی آخری زمانہ میں دوبارہ نازل ہونگے۔ اور اس تصنیف کے ذریعہ آنحضرت ﷺ کی وہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی جس میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ مسیح موعود کسر صلیب کرے گا۔ یعنی عیسائیوں کے عقائد کا قلع قمع کر دے گا۔

حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی حیات مبارکہ میں ۸۰ سے زائد کتب تحریر فرمائیں اس کے علاوہ آپ کے ملفوظات دس جلدوں میں شائع ہوئے اور آپ کے مکتوبات اور اشتہارات بھی تبلیغی لحاظ سے بہت مفید اور نفع مند ہیں۔

حضرت نبی اکرم ﷺ نے اپنے وقت کی ذی مقتدرت ہستیوں قیصر روم، کسری شاہ فارس، شاہ مصر اور شاہ حبشہ کو تبلیغی خطوط لکھے، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی کتب اور اشتہارات کے علاوہ اپنے وقت کی برسر اقتدار ہستیوں تک پیغام حق پہنچایا اور نواب آف بھوپال، امیر افغانستان اور ملکہ برطانیہ کو تبلیغی خطوط تحریر فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کے مامورین آسمانی بادشاہت کے نمائندہ ہوتے ہیں اور انہیں دنیاوی بادشاہتوں سے کچھ بھی سروکار نہیں ہوتا وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ اس عارضی دنیا کے ملکوں ورؤساء اِس فانی دنیا کی عزت وافتخار کی بجائے اُس حقیقی خالق ومالک کی قربت میں جگہ پائیں اسی لئے وہ ان دنیاوی بادشاہوں کو پیغام حق پہنچا کر فرائض منصبی سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’دنیا کے بادشاہوں کو اپنی بادشاہیاں مبارک ہوں، ہمیں ان کی سلطنت اور دولت سے کچھ غرض نہیں، ہمارے لئے آسمانی بادشاہت ہی کافی ہے، ہاں نیک نیتی سے، سچی خیر خواہی سے بادشاہوں کو بھی آسمانی پیغام پہنچانا ضروری ہے۔ (تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۲۶۵)

مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جُدا

مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار

ہم تو بستے ہیں فلک پر اس زمیں کو کیا کریں

آسماں کے رہنے والوں کو زمین سے کیا نقار

 (روحانی خزائن جلد ۲۱، براہین احمدیہ حصہ پنجم، صفحہ ۱۴۱)

سب سے پہلے آپؑ نے ۱۸۹۲ء میں احتشام الملک ناصر الدولہ جناب نواب احمد علی خان صاحب (1854-1902) کے نام خط لکھا، جو ریاست بھوپال کی والیہ نواب سلطان شاہ جہاں بیگم صاحبہ (1838-1901) کے داماد تھے جن کی شادی فروری ۱۸۷۴ میں نواب سلطان جہاں بیگم صاحبہ کے ساتھ ہوئی۔ آپ بھوپال کے آخری والی جناب نواب سر محمد حمید اللہ خان صاحب کے والد تھے۔

حضرت اقدس علیہ السلام نے تحریر فرمایا:

’’سو آپ پر واضح ہو کہ یہ عاجز خدا تعالیٰ سے مامور ہو کر اس صدی چار دہم کی اصلاح اور دین کی تجدید اور اس زمانہ کے ایمان کو قوی کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے اور بہت سے آسمانی نشان مجھ کو دیے گئے ہیں جو منجملہ اُن کے تین ہزار کے قریب اب تک ظاہر ہو چکے ہیں اور مجھے حکم ہے کہ مَیں لوگوں پر ظاہر کروں کہ اُس کی طرف سے مسیح ابن مریمؑ کے نمونہ پر رحمت کانمونہ دکھلانے کے لئے آیا ہوں۔ جو شخص دل اور جان سے میرا ساتھ کرے گا اُس کا ایمان قوی کیا جائے گا اور گناہوں کی زنجیروں سے مخلصی پائے گا اور دنیا کی مشکلات اُس پر آسان کی جائیں گی اور خدا تعالیٰ کا خاص فضل اُس پر ہوگا۔

سو یہ میری طرف سے تبلیغ ہے اور محض پیغام ہے جو میں نے آپ کو پہنچا دیا ہے بطور نمونہ ایک کتاب رسالۂ آسمانی فیصلہ بھی اس کے ہمراہ بھیجتا ہوں اور اثر نصیحت خدا تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں۔‘‘

(اخبار الحکم قادیان ۱۴ دسمبر ۱۹۱۹، صفحہ۳)

1895 میں آپؑ نے اُس وقت کے امیر افغانستان عبد الرحمان خان (وفات: اکتوبر ۱۹۰۱) کو تبلیغی خط تحریر فرمایا۔ یہ مکتوب فارسی زبان میں تھا۔ حضورؑ نےامیر افغانستان کو فرمایا: ’’اور اللہ کی قسم، میں اللہ کی طرف سے مامور ہوں۔ وہ میرے باطن اور ظاہر کو جانتا ہے اور اُسی نے مجھے اس صدی کے سر پر دین کے تازہ کرنے کے لئے اٹھایا ہے۔اس نے اپنے ایک بندہ کو اپنے وقت پر بطور مجدد پیدا کیا ہے۔ کیا تم خدا کے کام سے تعجب کرتے ہو اور وہ بڑا رحم کرنے والا ہے۔ اور نصاریٰ نے حیات مسیح کے سبب فتنہ برپا کیا اور کفر صریح میں گر گئے۔ پس خدا نے ارادہ کیا کہ اس بنیاد کو گِرا دے اور ان کے دلائل کو جھوٹا کرے اور ان پر ظاہر کر دے کہ وہ جھوٹے ہیں۔ پس جو کوئی قرآن پر ایمان رکھتا ہے اور خدا کے فضل کی طرف رغبت کرتا ہے پس اُسے لازم ہے کہ میری تصدیق کرے اور بیعت کرنے والوں میں داخل ہو۔ اور جس نے اپنے نفس کو میرے نفس سے ملایا اور اپنا ہاتھ میرے ہاتھ کے نیچے رکھا، اس کو خدا دنیا میں اور آخرت میں بلند کرے گا اور اس کو دونوں جہان میں نجات پانے والا بنائے گا۔‘‘

(سیرت المہدی، جلد اول، حصہ سوم روایت ۶۱۷)

پھر ایک مکتوب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۹۷ میں ملکہ برطانیہ Alexandrina Victoria (1819-1901) کے نام فرمایا جو ’’تحفہ قیصریہ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کی:

’’اے قادر توانا ہم تیری بے انتہا قدرت پر نظر کر کے ایک اور دعا کے لئے تیری جناب میں جرأت کرتے ہیں کہ ہماری محسنہ قیصرہ ہند کو مخلوق پرستی کی تاریکی سے چھڑا کر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر اس کا خاتمہ کر۔ اے عجیب قدرتوں والے، ائے عمیق تصرفوں والے، ایسا ہی کر۔

(تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد ۱۲، صفحہ ۲۹۰)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو تبلیغ اسلام کا اس قدر شوق تھا کہ آپ فرماتے ہیں:

’’ہمارے اختیار میں ہو تو ہم گھر بہ گھر پھر کر خدا تعالیٰ کے سچے دین کی اشاعت کریں اور ہلاک کرنے والے شرک اور کفر سے جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے لوگوں کو بچا لیں۔ (ملفوظات جلد۳ صفحہ ۲۹۱)

الحمد للہ اب تک ان تحریرات سے لاکھوں سعید روحوں نے استفادہ کیا اورجماعت احمدیہ میں شامل ہونے والوں میں مسلمان، ہندو، عیسائی، اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی شامل ہیں ان کتابوں کا فیض قیامت تک جاری رہے گا اور تشنہ روحیں اپنی تشنگی کو اس آب حیات سے دور کرتی رہیں گی۔ ان شاء اللہ۔

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)