اگر کوئی خداہے تووہ کرونا وائرس کو ختم کیوں نہیں کرتا؟ (اداریہ – مئی ۲۰۲۰)

ٓج کل سوشل میڈیا میں ایک طبقے کی طرف سے یہ سوال اٹھا یا جارہاہے کہ اگر کوئی خدا موجود ہے تو وہ کرونا وائرس کو ختم کیوں نہیں کرتا۔سب پہلے اس سوال کےپس پردہ ممکنہ نظریات اورسوالات پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔ ایک بات اس سے یہ اخذہوسکتی ہے کہ نعوذباللہ خداہے ہی نہیں اسلئے وائرس ختم نہیں کررہا۔دوسرا،موجودتوہے مگراس کودورکرنےکی طاقت و اہلیت نہیں رکھتا۔تیسرایہ کہ ایک طاقتوراورمقتدر خدا موجودہے جو غم اور خوشی کے حالات دنیا میں خاص مصلحت اورحکمت کے تحت وارد کرتاہے۔

جہاں تک خداکی موجودگی کا سوال ہے تو اس کی موجودگی اسی بات سے ثابت ہوجاتی ہے کہ دنیاکے معاشی اورسیاسی لحاظ سے طاقتور سمجھے جانے والے ممالک اس وائرس کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں جٹا پارہے ہیں۔ انکو یہ تسلیم کرنا پڑ رہاہے کہ انکے علاوہ بھی کوئی بالاطاقت موجودہے۔جو اس طرح کے حالات پیداکرسکتاہے جس کے سامنے بڑی بڑی حکومتوں کا غرور اور بڑے بڑےحاذق اطباء کی مہارت بھی فیل ہوسکتی ہے۔ Man proposes and God Disposes سے بھی اس کی ہستی کا ثبوت ملتاہے۔ خداکے بارے میں کمزوری اورنااہلیت متصور نہیں ہوسکتی۔ خداتعالیٰ کو ہر طرح کی قوت حاصل ہے۔ البتہ وہ بغیرحکمت کے کام نہیں کرتا۔اسلئے سختی اورتنگی کے حالات بھی اپنے اندر حکمت لئے ہوئے ہوتےہیں۔

 کیاخدااپنی خدائی اپنی مخلوق پر سخت حالات اور تنگی وارد کرکے ہی منواتاہے

سب سے پہلے یہ بات یادرکھنی چاہئے کہ بنی نوع انسان خدا کی مخلوق ہے۔ خدانے اسے اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔ دنیا کاکو ئی صانع اپنی مصنوع کو ضائع نہیں کرتا اسی طرح خداتعالیٰ نے بھی انسان کو ضائع کرنے یا عذاب کے لئے پیدا نہیں کیا ہے۔ بلکہ اپنی تمام مخلوق میں اسے اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کیا ہے۔اللہ تعالیٰ رحمٰن و رحیم ہے وہ بندوں کو عذاب دینے سے خوش نہیں ہوتا۔اس کی رحمت اس کے غضب پر حاوی ہے۔ انسان جب بھی اپنی ناسپاسیوں کو ترک کر کے اس کی طرف رجوع کرتاہے توخدا اس کے لئے اپنی رحمت کے پر پھیلادیتاہے۔ اور انسانی فطرت میں خدا کی طرف رجوع کرنے کے جذبے کو ودیعت کیا گیاہے۔ جب بھی وہ اپنے آپ کو بے بس پاتاہے تو بے ساختہ ایک بالا ہستی کو پکارتانظر آتاہے۔ اور وہی ہے جو مضطر کی فریاد کو سنتاہے۔ اور اسکے دکھ کو دور کرتاہے خداکا تعلق اپنے بندے کےساتھ اسی طرح ہے جس طرح ایک نوزائد بچے کا اپنی ماں کے ساتھ ہوتاہے۔جب وہ بچہ بیقراری میں چلاتاہے تو ماں کے پستانوں سے دودھ خود بخود نکل آتاہے۔ اسی طرح جب بندہ اپنے مالک حقیقی کو پکارتاہے تو وہ اسکی سنتاہے اور اسکی پریشانی کو دور کردیتاہے۔یہاں یہ سوال پیدا ہوسکتاہے کہ اگر خداکو انسان سے بیحد محبت ہے تو پھر انسان پر تنگی کیوں وارد کرتاہے یا کیو ںاس کو سز ادیتاہے۔یادرکھنا چاہئے کہ دنیا کے کسی بھی کامیاب انسان کی زندگی میں نشیب و فراز آتے ہیںبلکہ آزمائش اور ابتلاءکی وجہ سے انسانوں نے اپنے لئے ترقیات کے نئے مراحل طے کئے۔ سختی اورتنگی کے حالات میں ہی انسان کی مخفی صلاحیتیں ابھر کے سامنے آتی ہیں اور حالات سے مقابلہ کرنے کی اسکی استعدادوںمیں اضافہ ہوتاہے۔تو خداتعالیٰ کے سخت حالات وارد کرنے میں ایک حکمت یہ ہے کہ انسانی صلاحیتیں مزید صیقل ہوجاتی ہیں۔آج کل دنیا نے صحت کے شعبہ میں جو غیر معمولی ترقی کی ہے اورنئی نئی ادویات اورآلات معرض وجود میں آئے ہیں وہ سب انہی بیماریوں کے باعث ممکن ہوپایاہے۔ کروناوائرس کی وجہ سے بھی کھوج اور تفتیش کا ایک بڑ ا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ خداکی طرف سے سزا یا ابتلاءکو ہم آپریشن سے تشبیہ دے سکتے ہیں اگر جسم کا کوئی حصہ خراب ہو جائے اور اسےڈاکٹر آپریشن کر کے الگ کردیں تو یہ مریض کی جان بچانے کے لئے ضروری ہوتاہے.دنیا میں بہت ساری بیماریا ں اور تکالیف علت معلول (Cause And Effect) کی وجہ سے رونماہوتی ہیں۔بہت ساری بیماریاں موروثی ہوتی ہیں۔ بہت سے انسان اپنی صحت کو مضراشیاء کھا کر خراب کرتے ہیں اور اپنی قوت مدافعت کو کمزور کرکے وائرس اور بیماریوں کو دعوت دیتے ہیں۔ کمپیوٹر میں اگر اینٹی وائرس نصب نہ ہواہو تو وائرس اس پر جلدی حملہ کردیتاہے۔ اس پر کمپیوٹرکے بنانے والے کو قصوروار نہیں ٹھہرایاجاسکتا۔کرونا وائرس جیسے وباء کے تعلق سے بھی عالمی صحت ادارے نے بہت پہلے اندیشہ ظاہر کیا تھا اوراس کے وقوع میں آنے کے بعد بھی کئی راہنما اصول وضع کئے۔ لیکن ایک حد تک انکو نظر انداز کیا گیا یا پوری طرح عملایا نہیں گیا جس کی وجہ سے یہ وائرس خطرناک حد تک جان لیوا ثابت ہوا۔

اللہ تعالیٰ نے ہر ایک بیماری کا علاج رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بیماری کا علاج تلاش کرنے والوں کی مدد فرمائے۔ اور مخلوق کو اپنے خالق کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)