سال نو آغاز اور ہماری ذمہ داریاں (اداریہ – جنوری ۲۰۲۱)

سالِ نَو کی آمد پر خوشیاں منانا ایک رسم کی صورت اختیار کر چکا ہےاگرچہ ہر کسی کا انداز اپنا اپنا ہے۔ مذہب اسلام کی خوبی یہ ہے کہ اس کا ہر حکم، ہر ہدایت بامقصد اور پُر حکمت ہے۔ خوشی کے مواقع پر اسلام مناسب حال اظہار کی ممانعت نہیں کرتا لیکن ہر کام میں اللہ کی رضا، اس کی اطاعت اور مقصدِ حیات کو پیشِ نظر رکھنے کا ضرور عندیہ دیتا ہے۔آجکل دنیا کروناوائرس کی وباسے دوچار ہے۔ اور بھی کئی وبائیں دنیامیں نمودار ہورہی ہیں ۔ان حالات میں دنیا کی اقتصادی حالت کافی خستہ وخراب ہورہی ہے۔لیکن المیہ یہ ہے کہ دنیوی لوگ اپنی خراب عادتوں اور غلط راہوں اور روشوں کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہورہے ہیں ۔اوریہ وبائیں سبق آموز ثابت نہیں ہوپارہی ہیں بلکہ الٹا غلط نتائج پیدا کر رہی ہیں ۔اور دنیااپنے خالق کو مالک کو پہنچاننے کے بجائے اس مالک حقیق سے دور جارہی ہیں ۔طاقت کے نشے میں چور اقوام کمزور اقوام اور ممالک کو ظلم کانشانہ بنارہی ہیں ۔یہ حالات ہمیں دعوت فکردیتے ہیں کہ ہم اپنا محاسبہ کرتے ہوئےاپنے  اندر عملی تبدیلی پیداکریں .اورپہلے سے بڑھ کر اپنے پیداکرنے والے خدا کے آستانہ پر سجدہ ریزہوجائیں۔سال نوکے آغاز پر ہمارے پیارے امام حضرت امیر المومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے جو قیمتی نصائح ہمیں فرمائیں ہیں انکا اعادہ کرتے ہوئے یہ دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان نصائح اور زریں ہدایات پر سال بھر عمل کرنے کی توفیق وسعادت عطا فرمائے اور ان پر تادم زیست کاربند رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ حضورانور نے فرمایا:

’’اس وقت میں ایک اوربات کہنی چاہتاہوں آ ج نئے سال کا پہلا دن ہے اور پہلا جمعہ ہے۔ دعاکریں کہ یہ سال جماعت کے لئے ،دنیاکے لئے ،انسانیت کے لئےبابرکت ہو۔ہم بھی اپنا فرض ادا کرتے ہوئے پہلے سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کی طر جھکنے والےاور اپنی عبادتوں کے معیار بڑھانے والے ہوں اوردنیا والے بھی اپنی پیدائش کے مقصد کو سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا حق اداکرنے والے بن جائیں ۔اورایک دوسرے کے حقوق پامال کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلتے ہوئےایک دوسرے کے حق ادا کرنے والے بن جائیں ورنہ پھر اللہ تعالیٰ اپنے رنگ میں دنیا والوں کو انکے فرائض کی طرف توجہ دلاتاہےکاش کہ ہم اور دنیا کے تمام لوگ اس نکتے کو سمجھ جائیں اور اپنی دنیا او ر عاقبت سنوار سکیں …ہر احمدی کو غور کرناچاہئےکہ اس کے سپر د ایک بہت بڑا کام کیاگیاہےاور اسکے سرانجام دینے کے لئےپہلے اپنے اندر پیار اور محبت اور بھائی چارے کی فضا کو پیداکریںپھر دنیا کو اس جھنڈے کے نیچے لائیں جو حضرت محمد رسو ل اللہ ﷺ نے بلند کیا تھااور جو اللہ تعالیٰ کی توحید کا جھنڈا ہےتبھی ہم اپنی بیعت کے مقصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اسکی توفیق عطا فرمائے۔ اور ہر احمدی مرد عورت جوان بچہ  بوڑھااس بات کو سمجھتے ہوئے یہ عہد کرےکہ اس سال میں دنیا میںایک انقلاب پیداکرنے کے لئےاپنی تمام تر صلاحیتوں کو استعمال کرناہےاسکی ہرایک احمدی کو توفیق عطا فرمائے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ 1جنوری 2021)

نیاز احمدنائک

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)