عزم عالیشان (اداریہ – فروری ۲۰۲۱)

حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات پر آپ کی نعش مبارک کے سرہانے آپ کے الوالعزم جوان بیٹے حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد المصلح الموعودؓ نے ان الفاظ میں ایک تاریخی ساز عہد کیاکہ ’’اےخدا میں تجھ کو حاضر ناظر جان کر تجھ سے سچے دل سے یہ عہد کرتاہوں کہ اگر ساری جماعت احمدیت سے پھر جائے تب بھی وہ پیغام جو حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ تو نے نازل فرمایاہے، اس کو دنیا کے کونے تک پھیلاؤں گا۔‘‘

یہ تاریخ ساز عہد ہماری توجہ کئی چیزوں کی طرف مبذو ل کراتاہے اوراس میں ہمارے لئے کئی سبق آموز اورایمان افروز باتیں مضمر ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کی وفات پر کئی لوگ اس خوش فہمی میں مبتلاء ہوگئے تھے کہ نعوذباللہ اب یہ سلسلہ نیست ونابود ہوجائے گا۔اور دنیا میں بارہایہ منظر دیکھا گیاہے کہ بڑے بڑے قدآور لوگوں کی وفات کے بعد انکے گرد جمیعت بکھر جاتی ہے اورنام لیوا تک کوئی نہیں رہتا۔لیکن خداکے فرستادوں کے ساتھ ایسانہیں ہوتا۔بےشک وہ شروع میں اپنے ساتھ کوئی جمیعت اور طاقت نہیں رکھ رہے ہوتے ہیں۔ انکی ترقی تدریجاً ہوتی ہے لیکن مضبوط اورپائیدار ہوتی ہے۔آج جماعت احمدیہ کی مضبوطی اوراستحکام کے پیچھے حضرت مصلح موعودؓ کے اس عزم عالیشان کا ایک بنیادی کردار نظر آتاہے جو آپ نے نوجوانی کی عمر میں اپنے والد ماجد کے سرہانے کھڑے ہوکر کیاتھا۔یہ عزم عالیشان ہمارے نوجوانوں کے دلوں کے اندر نئے ولولے پیدا کرنے والاہے۔ان کے دلوں میں اس بات کو راسخ کرنے والاہے کہ حضرت مسیح موعو د ؑ مامور من اللہ تھے اور آپ ؑ کا قائم کردہ سلسلہ صداقت پر مبنی ہے تبھی باوجود بےشمار رکاوٹوں اورمخالفتوں کے ترقیات کی منازل طے کررہاہے۔ جس عزم اوراستقلال سے حضرت مصلح موعودؓ علم اسلام کی سربلندی کے کوشاں رہے اسی عزم صمیم کے ساتھ نوجوانان احمدیت کو ہمہ تن اسلام کی ترقی کے لئے مصروف عمل ہونا چاہئے۔حضرت مصلح موعودؓ کا یہ عزم عالیشان ہمیں یہ بھی درس دیتاہے کہ ابتلاؤں اور مصائب کے وقت ہمیں گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ ان سے لڑنے کا پختہ عزم کرناچاہے۔ یہ قوت ارادی کی کشتی ہی ہے جو ہمارے نوجوانوں کو مصائب و مشکلات کے بھنور سے نکال کر ساحل عافیت سے ہمکنار کرسکتی ہے۔قوم پرکسی بھی آفت یا حملہ کے وقت نوجوانوں کا ہی کام ہوتاہے کہ وہ حملہ آوروں کے سامنے سینہ سپر ہو کر اپنی جوانمردی کا ثبوت دیں اور قوم کو بچائیں۔ آج کل ہمارے نوجوانوں کوکئی محاذ پر لڑنے کی ضرورت ہے۔نوجوانوں کو اپنے عظیم قائد کی راہ پر چلتے ہوئے ان محاذوں کو کامیابی کے ساتھ سر کرنے کی ضرورت ہے۔ آج انٹرنیٹ کے دور میں ہماری اخلاقی اور روحانی قوتوں کوشیطان کے ساتھ ایک بہت بڑا معرکہ درپیش ہے۔ ہمیں انٹرنیٹ پر موجود شیطانی مواد سے کنارہ کرتے ہوئے رحمانی مائدہ یعنی ایم۔ ٹی۔ اے اور جماعتی ویب سائٹس کو زیادہ سے زیادہ دیکھنا چاہئے۔ اور اپنی قلمی تلواروں کو تیز کرتے ہوئے اسلام مخالف لٹریچر کا بدلائل جواب دینا چاہئے۔ اورہمیشہ اپنے ارادوں اور ہمتوں کو بلند اور جواں رکھنا چاہئے۔

میں اپنے پیاروں کی نسبت ہرگز نہ کروں گا پسند کبھی

کہ وہ چھوٹے درجہ پہ ہوں راضی اور انکی نگاہ رہے نیچی

نیاز احمدنائک

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)