قرآن کریم – فروری ۲۰۲۱

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِيْ وَبَنِيَّ أَنْ نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ۔(ابراہيم36:)

ترجمہ:اور(ىاد کرو) جب ابراہىم نے کہا اے مىرے ربّ! اس شہر کو امن کى جگہ بنا دے اور مجھے اور مىرے بىٹوں کو اس بات سے بچا کہ ہم بتوں کى عبادت کرىں۔ 

وَمَآ أَمْوَالُكُمْ وَلَآ أَوْلَادُكُمْ بِالَّتِيْ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰی إِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولٰٓئِكَ لَهُمْ جَزَآءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ اٰمِنُوْنَ۔(سورۃ سباء 38:)

 ترجمہ۔ اور تمہارے اموال اور تمہارى اولاد اىسى چىزىں نہىں جو تمہىں ہمارے نزدىک مرتبۂ قرب تک لے آئىں سوائے اس کے جو اىمان لاىا اور نىک اعمال بجا لاىا پس ىہى وہ لوگ ہىں جن کو اُن کے اعمال کے بدلے جو وہ کرتے تھے، دُہرى جزا دى جائے گى اور وہ بالاخانوں مىں امن کے ساتھ رہنے والے ہیں۔

وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ذٰلِکَ اَدْنٰۤی اَلَّا تَعُوْلُوْا۔(سورۃالنساء4:)

ترجمہ: اور اگر تم ڈرو کہ تم یتامیٰ کے بارے میں انصاف نہیں کر سکو گے تو عورتوں میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کرو۔ دو دو اور تین تین، چار چار لیکن اگر تمہیں خوف ہو کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر صرف ایک کافی ہے یا وہ جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یہ طریق قریب تر ہے کہ تم ناانصافی سے بچو۔

رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ. (الأَعراف: 24)

ترجمہ :۔ اُن دونوں نے کہا کہ اے ہمارے ربّ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم گھاٹا کھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

حیا بھی ایمان کا ایک حصہ ہے

دنیا تیزی سے بدل چکی ہے۔ اب خیالات، نظریات، رجحانات اور عقائد کی تشکیل کا سب سے تیز ذریعہ قلم اور کتاب نہیں، بلکہ موبائل

نظام خلافت: انسانیت کی بقا

آج کا دَور فتنوں کا دَور ہے۔ سیاسی انتشار، اخلاقی زوال، مذہبی منافرت اور روحانی بے راہ روی نے دنیا کو ایک ایسے موڑ پر

حسنِ اخلاق

اخلاق، انسانی شخصیت کا وہ پہلو ہے جو اس کے باطن کی آئینہ داری کرتا ہے۔ یہ محض ظاہری آداب کا نام نہیں، بلکہ دل