کلام الامام المہدی علیہ السلام – جون ۲۰۲۰

حضرت امام مہدی و مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’منہاج نبوت پر اس سلسلہ کو آزمائیں اور پھر دیکھیں کہ حق کس کے ساتھ ہے۔ خیالی اصولوں اور تجویزوں سے کچھ نہیں بنتا۔ اور نہ مَیں اپنی تصدیق خیالی باتوں سے کرتا ہوں۔ مَیں اپنے دعویٰ کو منہاجِ نبوت کے معیار پر پیش کرتا ہوں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اسی اصول پر اس کی سچائی کی آزمائش نہ کی جاوے۔جو دل کھول کر میری باتیں سنیں گے مَیں یقین رکھتا ہوں کہ فائدہ اٹھاویں گے اور مان لیں گے۔ لیکن جو دل میں بخل اور کینہ رکھتے ہیں ان کو میری باتیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکیں گی۔ …غرض ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ بار باراگر کچھ پیش کرتے ہیں تو حدیث کا ذخیرہ جس کو خود یہ ظن کے درجہ سے آگے نہیں بڑھاتے۔ ان کو معلوم نہیں کہ ایک وقت آئے گا کہ ان کے رطب و یابس امور پر لوگ ہنسی کریں گے۔یہ ہر ایک طالبِ حق کا حق ہے کہ وہ ہم سے ہمارے دعویٰ کا ثبوت مانگے۔اس کے لئے ہم وہی پیش کرتے ہیں جو نبیوں نے پیش کیا۔نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ، عقلی دلائل یعنی موجودہ ضرورتیں جو مصلح کے لئے مستدعی ہیں۔ پھر وہ نشانات جو خد انے میرے ہاتھ پر ظاہر کئے مَیں نے ایک نقشہ مرتب کر دیا ہے۔اس میں ڈیڑھ سو کے قریب نشانات دئیے ہیں جن کے گواہ ایک نوع سے کروڑوں انسان ہیں۔ بیہودہ باتیں پیش کرنا سعاد تمند کا کام نہیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لئے فرمایا تھا کہ وہ حَکَم ہو کر آئے گا۔اس کا فیصلہ منظور کرو۔جن لوگوں کے دل میں شرارت ہوتی ہے۔ وہ چونکہ ماننا نہیں چاہتے ہیں اس لئے بیہودہ حجتیں اور اعتراض پیش کرتے رہتے ہیں۔ مگر وہ یادرکھیں کہ آخر خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق زور آور حملوں سے میری سچائی ظاہر کرے گا۔مَیں یقین رکھتا ہوں کہ اگر میں افترا کرتا تو وہ مجھے فی الفور ہلاک کر دیتا۔ مگر میرا سارا کاروبار اس کا اپنا کاروبار ہے۔ اور میں اسی کی طرف سے آیا ہوں۔ میری تکذیب اس کی تکذیب ہے۔ اس لئے وہ خود میری سچائی ظاہر کردے گا۔‘‘

                                                                                                                    (ملفوظات جلداول صفحہ379)

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)