کلام الامام المہدی علیہ السلام – اکتوبر۲۰۲۰

حضرت امام مہدی و مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

ہم تو اپنے بچوں کے لئے دعا کرتے ہیں اور سرسری طور پر قواعد اور آدابِ تعلیم کی پابندی کراتے ہیں۔بس اس سے زیادہ نہیں اور پھر اپنا بھروسہ اللہ تعالیٰ پر رکھتے ہیں ۔ جیسا کسی میں سعادت کا تخم ہوگا وقت پر سر سبز ہو جائے گا۔            (ملفوظات جلد1 صفحہ 309)

’’جو شخص اولاد کو یا والدین کو یا کسی اَور چیز کو ایسا عزیز رکھے کہ ہر وقت انہیں کا فکر رہے تو وہ بھی ایک بت پرستی ہے۔… فرمایا : اولاد چیز کیا ہے؟ بچپن سے ماں اس پر جان فدا کرتی ہے مگر بڑے ہوکر دیکھا جاتا ہے کہ بہت سے لڑکے اپنی ماں کی نافرمانی کرتے ہیں اور اس سے گستاخی سے پیش آتے ہیں ۔ پھر اگر فرمانبردار بھی ہوں تو دکھ اور تکلیف کے وقت وہ اس کو ہٹا نہیں سکتے۔ ذرا سا پیٹ میں درد ہو تو تمام عاجز آجاتے ہیں ۔ نہ بیٹا کام آسکتا ہے نہ باپ، نہ ماں ، نہ کوئی اَور عزیز۔ اگر کام آتا ہے تو صرف خدا۔ پس ان کی اس قدر محبت اور پیار سے فائدہ کیا جس سے شرک لازم آئے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّمَآاَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُم فِتْنَۃٌ (التغابن:16) اولاد اور مال انسان کے لئے فتنہ ہوتے ہیں ۔ دیکھو اگر خدا کسی کو کہے کہ تیری کُل اولاد جو مرچکی ہے زندہ کردیتا ہوں مگر پھر میرا تجھ سے کچھ تعلق نہ ہوگا تو کیا اگر وہ عقلمند ہے اپنی اولاد کی طرف جانے کا خیال بھی کرے گا؟

پس انسان کی نیک بختی یہی ہے کہ خدا کو ہر ایک چیز پر مقدم رکھے۔ جو شخص اپنی اولاد کی وفات پر بُرا مناتا ہے وہ بخیل بھی ہوتا ہے کیونکہ وہ اس امانت کے دینے میں جو خدا تعالیٰ نے اس کے سپرد کی تھی بخل کرتا ہے اور بخیل کی نسبت حدیث میں آتا ہے کہ اگر وہ جنگل کے دریاؤں کے برابر بھی عبادت کرے تو وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ پس ایسا شخص جو خدا سے زیادہ کسی چیز کی محبت کرتا ہے اس کی عبادت نماز، روزہ بھی کسی کام کے نہیں ۔‘‘ (الحکم 22؍ اگست 1908ء، ملفوظات۔ جلد پنجم۔ صفحہ 602، 603)

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

حیا بھی ایمان کا ایک حصہ ہے

دنیا تیزی سے بدل چکی ہے۔ اب خیالات، نظریات، رجحانات اور عقائد کی تشکیل کا سب سے تیز ذریعہ قلم اور کتاب نہیں، بلکہ موبائل

نظام خلافت: انسانیت کی بقا

آج کا دَور فتنوں کا دَور ہے۔ سیاسی انتشار، اخلاقی زوال، مذہبی منافرت اور روحانی بے راہ روی نے دنیا کو ایک ایسے موڑ پر

حسنِ اخلاق

اخلاق، انسانی شخصیت کا وہ پہلو ہے جو اس کے باطن کی آئینہ داری کرتا ہے۔ یہ محض ظاہری آداب کا نام نہیں، بلکہ دل