امام وقت کی آواز – جنوری ۲۰۲۱
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں:۔ ’’جیساکہ مَیں نے کہا جماعت میں بہت تعداد ہے جو دل کھول کر چندہ دینے والی ہے اور اللہ کی…
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں:۔ ’’جیساکہ مَیں نے کہا جماعت میں بہت تعداد ہے جو دل کھول کر چندہ دینے والی ہے اور اللہ کی…
حضرت امام مہدی و مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: خدا کی رضا حاصل کرنے کا طریق ’’خدا کی رضا کو تم کسی طرح پا ہی نہیں سکتے جب…
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا قول ہے کہ رب کی رضا باپ کی رضا مندی میں ہے، اور رب کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے۔ (الادب المفرد للبخاری۔ باب قولہ تعالیٰ و وصینا الانسان بوالدیہ حسنا) حضرت عبداللہؓ بن عَمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنے ماں باپ کو گالی دینا کبیر گناہ ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول، کوئی شخص اپنے ماں باپ کو بھی گالی دے سکتا ہے؟۔ فرمایا: ہاں وہ دوسرے آدمی کے ماں اور باپ کو گالی دیتا ہے تو اپنے ہی ماں باپ کو گالی دیتا ہے۔(صحیح مسلم کتاب الایمان)۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا : جس نے ایک کھجور بھی پاک کمائی میں سے اللہ کی راہ میں دی اور اللہ پاک چیز کو ہی قبول فرماتا ہے تو اللہ اس کھجور کو دائیں ہاتھ سے قبول فرمائے گا اور اسے بڑھاتا جائے گا۔ یہاں تک کہ وہ پہاڑ جتنی ہو جائے گی۔ جیسے تم میں کوئی اپنے چھوٹے سے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے اور بڑا جانور بنا دیتا ہے۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ۔ باب لایقبل اللہ صدقۃمن غلول) حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جس کے لئے باب الدعا کھولا گیا تو گویا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دئیے گئے۔ اور اللہ تعالیٰ سے جو چیزیں مانگی جاتی ہیں ان میں سے سب سے زیادہ اس سے عافیت مطلوب کرنا محبوب ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دعا اس ابتلا کے مقابلے پر جو آچکا ہے اور اس کے مقابلہ پر بھی جو ابھی نہ آیا ہو، نفع دیتی ہے۔ اے اللہ کے بندو! تم پر لازم ہے کہ تم دعا کرنے کو اختیار کرو۔ (ترمذی ابواب الدعوات۔باب102حدیث نمبر3548)
وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ط اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُہُمَآ اَوْ کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ وَّ لَا تَنْہَرْہُمَا وَ قُلْ لَّہُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا۔…
سالِ نَو کی آمد پر خوشیاں منانا ایک رسم کی صورت اختیار کر چکا ہےاگرچہ ہر کسی کا انداز اپنا اپنا ہے۔ مذہب اسلام کی خوبی یہ ہے کہ اس…
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حوالہ پیش فرماتے ہیں:۔ ...دنیا کابہت سا علاقہ مسلمان کے زیرِ نگیں ہے۔…
حضرت امام مہدی و مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: معاشرے کا امن ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے اور معاف کرنے سے وابستہ ہے ’’پہلا خلق ان…
امّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ سب سے پہلے حضور ﷺ کو سچی خوابیں آنے لگیں۔ جو خواب بھی آتی وہ نمودِ صبح کی طرح روشن اور صحیح نکلتی۔ حضور ﷺ کو خلوت پسند تھی اور غار حرا میں جا کر عبادت کرتے تھے۔ آپﷺ کچھ سامان اپنے ہمراہ لے جاتے۔ جب ختم ہو جاتا تو دوبارہ گھر آکر کھانے پینے کا سامان لے جاتے۔ اسی اثناء میں آپ ﷺ کے پاس ایک فرشتہ آیا اور کہا پڑھو!۔ آپ ﷺ نے کہا میں نہیں پڑھ سکتا۔ فرشتہ نے آپ کوسختی سے دبایا پھر چھوڑ دیا اور کہا پڑھو!۔ حضور ﷺ نے کہا :میں نہیں پڑھ سکتا۔ فرشتہ نے دوسری مرتبہ دبایا پھر چھوڑ دیا اور کہا پڑھو!۔ حضور ﷺ نے کہا: میں نہیں پڑھ سکتا۔ تیسری دفعہ فرشتہ نے پھر دبایا اور چھوڑ دیا اور کہا اپنے اس پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے انسان کو پیدا کیا۔ پڑھو درآنحالیکہ تیرا رب عزت والا اور کرم والا ہے۔ اس کے بعد حضور ﷺ گھر واپس آئے۔ آپ ﷺ کا دل لرز رہا تھا۔ اپنی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہؓ کے پاس آکر کہا مجھے کمبل اوڑھا دو۔ چنانچہ انہوں نے کمبل اوڑھا دیا۔ جب آپ ﷺ کی گھبراہٹ جاتی رہی تو حضرت خدیجہؓ کو سارا واقعہ بتایا اور اس خیال کا اظہار کیا کہ میں اپنے متعلق ڈرتا ہوں۔ اس پر حضرت خدیجہؓ نے کہا کہ خدا کی قسم !اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو کبھی رسوا نہیں ہونے دے گا۔ آپ ﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں، کمزوروں کواٹھاتے ہیں، جو خوبیاں معدوم ہو چکی ہیں ان کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مہمان نواز ہیں، ضروریات حقہ میں امداد کرتے ہیں۔ (ملخص ازصحیح بخاری۔کتاب کیف کان بدأ الوحی الیٰ رسول اللہﷺ) ایک بار حضورؐ تشریف فرما تھے کہ آپ کے رضاعی والد آئے۔ حضورؐ نے ان کے لئے چادرکا ایک پلّو بچھا دیا۔ پھر آپ کی رضاعی ماں آئیں تو آپؐ نے دوسرا پلّو بچھا دیا۔ پھر آپ کے رضاعی بھائی آئے تو آپؐ اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کو اپنے سامنے بٹھا لیا۔(سنن ابوداؤد کتاب الادب باب برالوالدین)
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ اِقْرَاْ وَ رَبُّکَ الْاَكْرَمُ۔ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۔ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ۔ کَلَّاۤ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰۤی۔ اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰی۔ اِنَّ اِلٰی رَبِّکَ الرُّجْعٰی۔ (سورۃ العلق۔ آیات 2تا9) ترجمہ: پڑھ اپنے ربّ کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔ اس نے انسان کو ایک چمٹ جانے والے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھ، اور تیرا رب سب سے زیادہ معزّز ہے۔ جس نے قلم کے ذریعہ سکھایا۔ انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ خبردار! انسان یقیناً سرکشی کرتا ہے۔ (اس لئے) کہ اس نے اپنے آپ کو بے نیاز سمجھا۔ یقیناً تیرے ربّ ہی کی طرف لَوٹ کر جانا ہے۔ وَ قُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ ؕ اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَہُمْ ؕ اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا۔ رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِكُمْ ؕ اِنْ یَّشَاْ یَرْحَمْكُمْ اَوْ اِنْ یَّشَاْ یُعَذِّبْكُمْ ؕ وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْہِمْ وَکِیْلًا۔ (سورۃ بنی اسرائیل۔آیت 54تا55) ترجمہ: اور تو میرے بندوں سے کہہ کہ وہی بات کہا کریں جو سب سے زیادہ اچھی ہو کیونکہ شیطان یقینًا اُن کے درمیان فساد ڈالتا رہتا ہے۔ شیطان انسان کا کُھلا (کُھلا) دشمن ہے۔تمہارا رب تمہیں سب سے زیادہ جانتا ہے اگر وہ چاہے گا تو تم پر رحم کرےگا اور اگر وہ چاہےگا تو تمہیں عذاب دے گا اور اے رسول! ہم نے تجھے ان کا ذمہ وار بنا کر نہیں بھیجا۔ یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِـُٔوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَ لَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ (سورۃ الصف: 9) ترجمہ :وہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھادیں حالانکہ اللہ ہر حال میں اپنا نور پورا کرنے والا ہے خواہ کافر ناپسند کریں۔
جلسہ سالانہ جماعتِ احمدیہ کی اخلاقی اور روحانی تربیت میں جہاں ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے وہیں جماعتی تشخص کو عالمی افق پر اُجاگر کرنے میں بھی اِس روحانی اجتماع…