گر محبت نہيں بےکار ہے انساں ہونا 

 انسان دو محبتوں کے مجموعے کا نام ہے۔ ایک ہے خالق سے محبت دوسراہے اسکی مخلوق سے محبت۔ جس میں یہ دونوں محبتیں موجود ہوں وہ انسان کہلانے کا مستحق ہے۔حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ  کیا خوب فرماتی ہیں کہ

                                                                                                                                                                                                                                    خلقت انس میں ہے انس و محبت کا خمیر

گر محبت نہیں بےکار ہے انساں ہونا

اللہ تعالیٰ انبیاء کو دنیا میں انسانیت کا درس دینے کے لئے مبعوث فرماتاہے۔انبیاء حقوق انسانی کے علمبردار ہوتے ہیں ۔اس دور آخر میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندے حضرت مرزاغلام احمد قادیانیؑ کو اسی مقصد وحید کے لئے آنحضرتﷺ کی اتباع میں مبعوث فرمایا۔حقوق اللہ اور حقوق العباد کا پیغام لے کر آپ اس دنیا میں مبعوث ہوئے۔آپؑ نے فرمایا کہ وہ دین دین نہیں جس میں عام ہمدردی کی تعلیم نہ ہواور نہ وہ انسان انسان ہےجس میں ہمدردی کامادہ نہ ہو۔

اپنی معرکۃالآراء کتاب کشتی نوح میں آپؑ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ’’بس یہی کہ تم تمام نوع انسان سے عدل کے ساتھ پیش آیا کرو۔ پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ ان سے بھی نیکی کرو جنہوں نے تم سے کوئی نیکی نہیں کی۔ پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم مخلوق خدا سے ایسی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ کہ گویا تم ان کے حقیقی رشتہ دار ہو جیسا کہ مائیں اپنے بچوں سے پیش آتی ہیں کیونکہ احسان میں ایک خودنمائی کا مادہ بھی مخفی ہوتا ہے اور احسان کرنے والا کبھی اپنے احسان کو جتلا بھی دیتا ہے لیکن وہ جو ماں کی طرح طبعی جوش سے نیکی کرتا ہے وہ کبھی خود نمائی نہیں کر سکتا۔ پس آخری درجہ نیکیوں کا طبعی جوش ہے جو ماں کی طرح ہو اور یہ آیت نہ صرف مخلوق کے متعلق ہے بلکہ خدا کے متعلق بھی ہے۔ خدا سے عدل یہ ہے کہ اس کی نعمتوں کو یاد کر کے اس کی فرمانبرداری کرنا اور خدا سے احسان یہ ہے کہ اس کی ذات پر ایسا یقین کر لینا کہ گویا اس کو دیکھ رہا ہے اور خدا سے اِيْتَآءِذِي الْقُرْبٰى یہ ہے کہ اس کی عبادت نہ تو بہشت کے طمع سے ہو اور نہ دوزخ کے خوف سے۔ بلکہ اگر فرض کیا جائے کہ نہ بہشت ہے اور نہ دوزخ ہے تب بھی جوش محبت اور اطاعت میں فرق نہ آوے۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19صفحہ 30-31)

مزید آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’اخلاق دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ ہیں جو آج کل کے نو تعلیم یافتہ پیش کرتے ہیں کہ ملاقات وغیرہ میں زبان سے چاپلوسی اور مداہنہ سے پیش آتے ہیں۔‘‘ چاپلوسی کرنے ہاں جی، جی حضوری کرلی ’’اور دلوں میں نفاق اور کینہ بھرا ہوا ہوتا ہے۔ یہ اخلاق قرآن شریف کے خلاف ہیں۔ دوسری قسم اخلاق کی یہ ہے کہ سچی ہمدردی کرے۔ دل میں نفاق نہ ہو اور چاپلوسی اور مداہنہ وغیرہ سے کام نہ لے جیسے خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَآءِ ذِي الْقُرْبٰى (النحل:91) تو یہ کامل طریق ہے اور ہر ایک کامل طریق اور ہدایت خدا کے کلام میں موجود ہے۔ جو اس سے روگردانی کرتے ہیں وہ اور جگہ ہدایت نہیں پا سکتے۔ اچھی تعلیم اپنی اثر اندازی کے لئے دل کی پاکیزگی چاہتی ہے۔ جو لوگ اس سے دور ہیں اگر عمیق نظر سے ان کو دیکھو گے تو ان میں ضرور گند نظر آئے گا۔ زندگی کا اعتبار نہیں ہے۔ نماز، صدق و صفا میں ترقی کرو۔‘‘(ملفوظات جلد6صفحہ200)

آج کے دور میں جہاں عدل و انصاف کا فقدان ہے اس پیغام پر کان دھرنے کی اشد ضرورت ہے کہ انسان اپنی اخلاقی قدروں کوپامال نہ کرے اور عد ل وانصاف پر قائم رہتے ہوئے مخلوق خدا سے محبت اور پیار کے ساتھ پیش آئے اور ظلم و تعدی سے بازآئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ دنیا اپنے ساتھ خاق ومالک کو پہچاننے والی ہو اور مخلوق خد ا کے عزت اوراحسان کا سلوک کرنے والی ہو۔آمین۔

(نیاز احمد نائک)

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)