یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآءَ کَرْہًا وَ لَا تَعْضُلُوْہُنَّ لِتَذْہَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ۚ وَ عَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۚ فَاِنْ کَرِہْتُمُوْہُنَّ فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا ﴿۲۰﴾(النساء: 20))
ترجمہ: اے وہ لوگو !جو ايمان لائے ہو تمہارے لئے جائز نہيں کہ تم زبر دستي کرتے ہوئے عورتوں کا ورثہ لو اور انہيں اس غرض سے تنگ نہ کرو کہ تم جو کچھ انہيں دے بيٹھے ہو اس ميں سے کچھ پھرلے بھاگو۔ سوائے اس کے کہ وہ کھلي کھلي بے حيائي کي مرتکب ہوئي ہوں اور ان سے نيک سلوک کے ساتھ زندگي بسر کرواور اگر تم انہيں نا پسند کرو تو عين ممکن ہے کہ تم ايک چيز کو نا پسند کرو اور اﷲ اس ميں بہت بھلائي رکھ دے۔
تفسیر
قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ اگر مرد اپنی عورت کو مروت اور احسان کی رو سے ایک پہاڑ سونے کا بھی دے تو طلاق کی حالت میں واپس نہ لے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اسلام میں عورتوں کی کس قدر عزت کی گئی ہے ایک طور سے تو مردوں کو عورتوں کا نو کر ٹھیرایا گیا ہے اور بہر حال مردوں کے لیے قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ یعنی تم اپنی عورتوں سے ایسے حسن سلوک سے معاشرت کرو کہ ہر ایک عقل مندمعلوم کر سکے کہ تم اپنی بیوی سے احسان اور مروت سے پیش آتے ہو۔
(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۸۸)
فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں اور فرمایا ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں ہم کو خدا نے مرد بنایا اور یہ در حقیقت ہم پر اتمام نعمت ہے اس کا شکر یہ ہے کہ عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں ….. میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھا اور میں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے اور با ایں ہمہ کوئی دل آزار اور درشت کلمہ منہ سے نہیں نکالا تھا اس کے بعد میں بہت دیر تک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع اور خضوع سے نفلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیت الہی کا نتیجہ ہے۔ ( الحکم جلد ۴ نمبر ۲ مورخه ۱۷ جنوری ۱۹۰۰ صفحه ۳، ۴)