امام وقت کی آواز – جنوری ۲۰۲۱

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں:۔

’’جیساکہ مَیں نے کہا جماعت میں بہت تعداد ہے جو دل کھول کر چندہ دینے والی ہے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتی ہے۔ لیکن ایسے بھی لوگ ہیں جو اچھی بھلی آمد ہوتی ہے تو حیلے بہانے تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ بہت سارے اپنے اخراجات شامل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اصل آمد تو ہماری یہ ہے۔ اس پہ ہم چندہ دیں گے۔ یا اس کے مطابق ہم چندہ دیں گے۔ ہماری آمد کوئی نہیں، حالات بڑے خراب ہیں۔ تو ان کو بھی سوچنا چاہئے، ناشکری نہیں کرنی چاہئے۔ اس ناشکری کی وجہ سے جو اچھے بھلے حالات ٹھیک ہیں وہ خراب بھی ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ تو یہی کہتا ہے کہ میری راہ میں وہی مال خرچ کرو جو تمہیں زیادہ محبوب ہے۔ اپنی ضروریات کو پیچھے ڈالو اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔

یاد رکھیں کہ یہ فیض، یہ فضل، جیسا کہ مَیں نے کہا ان لوگوں کی قربانیوں کی ہی وجہ سے ہے جو آج ہم پر ہے۔ اور آج آپ کی اس قربانی کی وجہ سے اسی طرح بڑھ کریہ فیض اور فضل آپ کی نسلوں میں، آپ کی اولادوں میں جاری ہو جائے گا۔ایک روایت میں آتا ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا جس نے ایک کھجور بھی پاک کمائی میں سے اللہ کی راہ میں دی اور اللہ پاک چیز کو ہی قبول فرماتا ہے تو اللہ اس کھجور کو دائیں ہاتھ سے قبول فرمائے گا اور اسے بڑھاتا جائے گا۔ یہاں تک کہ وہ پہاڑ جتنی ہو جائے گی۔ جیسے تم میں کوئی اپنے چھوٹے سے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے اور بڑا جانور بنا دیتا ہے۔

(بخاری کتاب الزکوٰۃ۔ باب لایقبل اللہ صدقۃمن غلول)

…پس جلدی سے آگے بڑھیں اور فرشتوں کی دعائیں لینے والے بنیں تاکہ آپ کی اولادیں بھی اس قربانی سے فیض پاتی رہیں۔ یہی سب سے بڑا خزانہ ہو گا جو آپ اپنی اولادوں کے لئے ان دعاؤں کا چھوڑ کر جائیں گے…

(خطبہ جمعہ 5؍ نومبر 2004ءبحوالہalislam.org)

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)