بلال احمد آہنگر استاد جامعہ احمدیہ قادیان
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں آنحضرت ؐ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے :
إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ (الكوثر 2)
ترجمہ : یقیناََ ہم نے تجھے کوثر عطا کی ہے۔ اسکا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ وہ کوثر جو آنحضرت ﷺ کو عطا ہوئی وہ قرآن کریم ہے۔ اور حضرت مسیح موعودؑ کو بھی آنحضرت ﷺ کا کامل غلام ہونے کے ناطے ایک ظلی کوثر عطا ہوئی اور وہ قرآن کریم کے معارف ہیں جو حضرت مسیح موعودؑ کی کتب میں محفوظ ہیں۔ آپؑ اپنے منظوم کلام میں اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمائے ہیں:
وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے
اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار
حضرت مسیح موعودؑ کی طبیعت میں غیر معمولی عجز و انکسار پایا جاتا تھا اور ذاتی تفاخر اور بڑائی کا شائبہ تک آپ میںنہ تھا۔ اس پس منظر میں یہ بات لائق توجہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو خدمت اسلام کے لئے ایک پرُ جوش دل عطا فرمایا تو اسے علوم و معارف کی آما جگاہ بنایا پھر آپؑ کو اپنی جناب سے اظہار بیان کا اچھوتا اسلوب سکھایا اور آپؑ کو تحریر کا بادشاہ قرار دیتے ہوئے سلطان القلم کے خطاب سے نوازا تو آپؑ نے کسی ذاتی تفاخر کے لئے نہیں بلکہ لوگوں کی بھلائی اور خیر خواہی کی خاطر انہیں علوم و معارف کے اس عظیم خزانہ کی طرف بار بار متوجہ کیا جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ ان تحقیقی علمی رسائل کے بارہ میں فرماتے ہیں۔
’’یہ رسائل جو لکھے گئے ہیں تائیدا لہٰی سے لکھے گئے ہیں۔ میں ان کا نام وحی اور الہام تو نہیں رکھتا مگر یہ تو ضرور کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی خاص اور خارق عادت تائید نے یہ رسالے میرے ہاتھ سے لکھوائے ہیں۔‘‘
(سر الخلافہ۔ روحانی خزائن، جلد ۸، صفحہ ۴۱۶)
ایک اور موقع پر فرمایا:’’تحریر میں مجھے وہ طاقت دی گئی کہ گویا میں نہیں بلکہ فرشتے لکھتے جاتے ہیں گو بظاہر میرے ہی ہاتھ ہیں۔ ‘‘
(مجموعہ اشتہارات، جلد سوم، صفحہ ۱۶۱)
اسی خارق عادت تائید و نصرت کا ذکر کرتے ہوئے دہلی کے ایک بزرگ حضرت شاہ نعمت اللہ ولی رحمتہ اللہ علیہ نے امام مہدی و مسیح موعود کے متعلق یہ پیشگوئی کی تھی کہ
ید بیضا کہ با او تا بندہ
باز با ذوالفقار می بینم
یعنی اس امام موعود کا چمکنے والا ہاتھ وہ کام کرے گا جو پہلے زمانہ میں علی کی تلوار کرتی تھی۔ (نشانِ آسمانی۔ روحانی خزائن، جلد ۴، صفحہ ۳۵۸)
حضرت مسیح موعودؑ کی جملہ تحریرات براہین احمدیہ سے لے کر پیغام صلح تک کو دیکھنے سےصاف معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ نے ملک کے مذہبی جمود
کو توڑ کر اس میں ایک نئی روح پھونکنے کیلئے ایک اثر انگیز، و جد آفرین اور پر معارف زندہ علمی و تحقیقی لٹریچر کی بنیاد رکھی اور ایسی تصنیفات اپنے بعد چھوڑی ہیں جن میں ادب و انشاء پردازی کے تمام اعلیٰ اجزاء شامل ہیں جو تصنع و تکلف سے پاک ہیں غرض آپؑ کا کلام اتنا نفع رساں، اس کے الفاظ اتنے حسین، اسلوب ادا اتنا خوبصورت اور دلکش، سلاست و روانی ایسی دلآویز و دلنشین، تحقیقی نکات سے پُر، علمی محیر العقول انکشافات سے سجا ہوا اورمقاصد ایسے واضح روشن اور ٹھوس دلائل سے مزین کہ طبیعت تاثر لئے بغیر نہیں رہ سکتی۔
حضرات! سال ۱۸۹۵ء کو جماعت احمدیہ کی تاریخ میں یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس سال آپؑ نے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے دو ایسے علمی انکشافات فرمائے جن سے اسلام کی فتح کے نقارےبجنے لگے۔ چنانچہ آپؑ نے زبردست دلائل سے ثابت کیا کہ
۱۔ عربی زبان ام الالسنہ ہے۔
۲۔ حضرت مسیح موعودؑ کی قبر محلہ خانیار میں ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’میں خاص طور پر خدا تعالیٰ کی اعجاز نمائی کو انشاء پردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتا ہوں۔ کیونکہ جب میں عربی میں یا اُردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے۔ ‘‘(نزول المسیح، صفحہ ۵۶)
جو رازِ دیں تھے بھارے اس نے بتائے سارے
دولت کا دینے والا فرمانروا یہی ہے
حضرت مسیح موعودؑ نے دنیا کے سامنے ایک قابل حیرت انکشاف اور ایک منفرد حقیقت پیش کی کہ عربی زبان اُم الالسنہ ہے۔ عربی زبان کی تاریخ میں ایسا کوئی انسان نہیں گزرا جس نے عربی زبان کی یہ امتیازی شان بذریعہ دلائل ثابت کی ہو۔ حضرت مسیح موعودؑ اپنی معرکتہ الآراء تصنیف منن الرحمٰن میں تحریر فرماتے ہیںکہ :
’’علماء اسلام کو غفلت میں سوئے ہوئے اور ان کی ہمدردی دین اور اُن کی خدمت سے عدم توجہی اور دنیا طلبی اور مخالفین کی دین اسلام کے مٹانے
کیلئے مساعی اور ان کے حملوں کو دیکھ کر میرا دل بیقرار ہوا اور قریب تھا کہ جان نکل جاتی۔ تب میں نے اللہ تعالیٰ سے نہایت عاجزی اور تضرع سے دعا کی کہ وہ میری نصرت فرمائے۔ اللہ تعالیٰ نے میری دعا کو قبول فرمایا۔ سو ایک دن جب کہ میں نہایت بے قراری کی حالت میں قرآن کریم کی آیات نہایت تدبر اور فکر اور غور سے پڑھ رہا تھا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا تھا کہ مجھے مغفرت کی راہ دکھا وے اور ظالموں پر میری حجت پوری کرے تو قرآن شریف کی ایک آیت میری آنکھوں کے سامنے چمکی اور غور کے بعد میں نے اسے علوم کا خزانہ اور اسرار کا دفینہ پایا۔ میں خوش ہوا اور الحمد للہ کہا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور وہ آیت یہ تھی۔ وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَی وَمَنْ حَوْلَهَا (الشوری 8) اس آیت کے متعلق مجھ پر کھولا گیا کہ یہ آیت عربی زبان کے فضائل پر دلالت کرتی ہے اور اشارہ کرتی ہے کہ عربی زبان تمام زبانوں کی اور قرآن مجید تمام کتابوں کی ماں ہے اور یہ مکہ مکرمہ ام الارضین ہے۔‘‘
(منن الرحمٰن، روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۱۷۹تا ۱۸۳ ملخصاََ)
مزید فرمایا کہ :
’’واضح ہو کہ اس کتاب میں تحقیق الالسنہ کی رو سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ دنیا میں صرف قرآن شریف ایک ایسی کتاب ہے جو اس زبان میں نازل ہوا ہے جو ام الالسنہ اور الہامی اور تمام بولیوں کا منبع اور سر چشمہ ہے۔ ‘‘
(ضیاء الحق، روحانی خزائن، جلد ۹ صفحہ ۲۵۰)
پھر اپنی تحقیق اور عربی زبان کے مقابل پر دوسری زبانوں کا ناقص ہونا بیان کرکے فرماتے ہیں، ’’ہم نے زبان عربی کی فضیلت اور کمال اور فوق الالسنہ ہونے کے دلائل اپنی اس کتاب میں مبسوط طور پر لکھ دیئے ہیں جو بتفصیل ذیل ہیں:
۱۔ عربی کی مفردات کا نظام کامل ہے۔ ۲۔ عربی اعلیٰ درجہ کی وجوہ تسمیہ پر مشتمل ہے جو فوق العادت ہیں۔ ۳۔ عربی کا سلسلہ اطراد مواد اتم اور اکمل ہے۔
۴۔ عربی تراکیب میں الفاظ کم اور معانی زیادہ ہیں۔ ۵۔ عربی زبان ضمائر کا پورا نقشہ کھینچنے کیلئے پوری پوری طاقت اپنے اندر رکھتی ہے۔
حضرت مصلح موعود نے اپنی کتاب ’’دعوت الامیر‘‘ میں حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کے دلائل بیان کرتے ہوئے نویں دلیل ’’علوم آسمانی کا انکشاف‘‘ کی ذیل میں فرماتے ہیں:
(الف) عربی زبان کے متعلق یہ ایک ایسی بے نظیر تحقیق ہے کہ دنیا کے نقطہ نظر کو (دین) کے مطابق بالکل بدل دے گی اور (دین) کو بہت بڑی شوکت اس سے حاصل ہوگی۔ (ب) مسیح موعودؑ نے اس الہامی انکشاف کے نتیجہ میں شروع کی جانے والی تحقیق کو روحانی جنگ کا نام دیا اور فرمایا:
’’جس میں عنقریب (دین حق) کی طرف سے فتح کے نقارےبجیںگے‘‘
(منن الرحمٰن صفحہ ۱۸)
(ج) ’’عنقریب یہ کتاب (منن الرحمٰن) دیار و امصار میں اشاعت پذیر ہو جائےگی۔ پس اس روز منکروں کے منہ سیاہ ہو جائیں گے۔ ‘‘
(انجام آتھم صفحہ ۲۵۱، ۲۵۲)
حضرات ! یورپ کے ماہرین لسانیات نے لمبی کوششوں کے نتیجے میں سنسکرت یا پہلوی زبان کو ام الالسنہ قرار دیا تھا۔ ان حالات میں آپ کو علم دیا جانا کہ اصل میں عربی زبان ہی ام الالسنہ ہے ایک حیرت انگیز انکشاف تھا جس نے یقیناََ دنیا کے نقطہ نظر کو بدل ڈالا۔
ایک منفرد اعزاز۔ قبر مسیح کا انکشاف :
سیدنا حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی بعثت کے ہر دو مقاصد یعنی غلبہ اسلام اور ابطال مسیحیت کے پیش نظر و فات مسیح کے مسئلہ کو پیش فرمایا۔ آپ نے خداتعالیٰ سے خبر پا کر اعلان فرمایا کہ :’’یہی سچ ہے کہ مسیح فوت ہو چکا اور سرینگر محلہ خانیار میں اس کی قبر ہے۔ اب خدا خود نازل ہوگا اور ان لوگوں سے آلڑےگا جو سچائی سے لڑتے ہیں۔ خدا کا لڑنا قابل اعتراض نہیں کیونکہ وہ نشانوں کے رنگ میں ہے لیکن انسان کا لڑنا قابل اعتراض ہے کیونکہ وہ جبر کے رنگ میں ہے۔ ‘‘ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۷۶)
حضرت اقدسؑ نے کشمیر میں حضرت مسیح ناصریؑ کی قبر کا انکشاف پہلی دفعہ اپنی کتاب ’’رازِ حقیقت‘‘ میں کیا۔ یہ کتاب ۳ نومبر ۱۸۹۸ء میں شائع ہوئی۔ حضرت اقدسؑ نے اپنی تصنیف ’’مسیح ہندوستان میں‘‘ ۵۶۰ علماء کی شہادتیں رقم فرما کر قبر مسیح کا ایک منفرد انکشاف دنیا کے سامنے پیش فرمایا چنانچہ اس اعلان نے ایک طرف تو مسلمانوں کے غلط خیال کی تردید کی جو حضرت عیسیٰؑ کو چوتھے آسمان پر زندہ یقین کرتے تھے اور ان کی آمد ثانی کے منتظر تھے اور دوسری طرف عیسائیت کے سب عقائد کی بنیاد ہی مسمار کر دی جو حیات مسیح سے الوہیت اور پھر الوہیت مسیح سے تثلیث اور کفارہ کا استدلال کرتے ہوئے عیسائیوں نے تعمیر کر رکھی تھی الغرض خدا کے مسیح کے اس ایک ہی وار نے باطل کی سب تدبیروں کو پاش پاش کر دیا اور اس ایک نئے انکشاف نے مذہبی دنیا کا نقشہ بدل ڈالا۔
قارئین! حضرت مسیح موعودؑ کا ہجرت مسیح ناصری کا عظیم انکشاف جب عرب ممالک میں پہنچا تو مدیر المنارشیخ رشید رضا نے لکھا:
ففرارہ الی الھند و مو تہ فی ذلک البلد لیس ببعید عقلاو نقلا
یعنی حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کا ہندوستان کی طرف ہجرت کرنا اور اس ملک میں جا کر وفات پانا عقلی و نقلی اعتبار سے بعید از قیاس نہیں ہے۔
(تفسیر المنار، جلد ۶، صفحہ ۶۳)
اسی طرح ایک اور نامور عالم اور ادیب محمود عباس عقاد اپنی کتاب ’’حیاۃ المسیح و کشوف العصر الحدیث‘‘ میں قبر مسیح کے متعلق حضورؑ کے انکشاف کا ذکر کرکے لکھتے ہیں کہ اسے کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
(تاریخ احمدیت، جلد ۱، صفحہ ۵۳۰)
الغرض ۱۸۹۵ء کا سال اس اعتبار سے بہت اہم تھا کہ اس سال حضرت مسیح موعودؑ نے دنیا کے سامنےیہ انکشاف فرمایا کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام جنہیں عیسائی دنیا خدا کا بیٹا بنا کر آسمان پر بٹھا چکی ہے۔ وہ در اصل صلیب سے نجات پانے کے بعد صحت یاب ہو کر ہندوستان کی طرف تشریف لائے تھے اور کشمیر میں سرینگر کے محلہ خانیار میں ان کی قبر موجود ہے جو اصل شہر سے قریباََ۳ میل کے فاصلے پر خواص و عوام کے لئے ایک زیارت گاہ بنی ہوئی ہے اور یوز آسف نبی کی قبر کے نام سے موسوم ہے۔
اس انکشاف نے مذہبی حلقوں میں ایک زلزلہ برپا کر دیا اور ہر طرف سے اس خیال کی تردید پیش کی جانے لگی۔ لیکن خدا تعالیٰ نے جہاں ایک طرف اپنے مامور کی زبان سے یہ اعلان کروایا وہیں دوسری طرف اس واقعہ کی تائید میں غیر معمولی گواہیاں بھی مہیا فرما دیں۔
چنانچہ ہندوستان میں دو ایسے قدیم سکے بر آمد ہوئے جن میں سے ایک پر حضرت مسیحؑ کا نام پالی زبان میں کندہ تھا اور دوسرے پر آپ کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ جس سے یہ پتہ چلتا تھا کہ حضرت مسیحؑ اس ملک میں ضرور تشریف لائے ہیں۔ اس انکشاف کو حضرت اقدسؑ نے اپنی کتاب میں نور القرآن میں تحریر فرمایا اور ساتھ ہی ساتھ آپ نے احباب جماعت کا ایک وفد اس بات کی مزید تحقیقات اور دلائل اکٹھے کرنے کے لئے سرینگر روانہ کیا جس نے اپنی تفصیلی رپورٹ حضورکی خدمت میں پیش کی۔ جس کے بعد اپریل ۱۸۹۹ ء میں حضورؑ نے ایک تفصیلی کتاب اس موضوع پر ’’مسیح ہندوستان میں‘‘ کے نام سے تحریر فرمائی۔ اس کتاب میں حضور نے تفصیل سےحضرت مسیح کے صلیب سے بچنے اور ہجرت کے واقعات پیش کئے اور ناقابل تردید دلائل پیش فرمائے۔ آپ نے قرآن و حدیث بائیبل نیز تاریخی اور طبی کتب کے حوالوں سے یہ بات ثابت کی کہ حضرت مسیح نہ مصلوب ہوئے اور نہ ہی آسمان پر گئے تھے اور نہ کبھی وہ زمین پر دوبارہ نازل ہونگے۔ بلکہ وہ ۱۲۰ سال کی عمر پا کر سرینگر میں فوت ہوئے اور وہیں محلہ خانیار میں ان کی قبر موجود ہے۔
علاوہ ازیں مریم عیسیٰ کے انکشاف سے عیسائیوں پر اسلام کی برتری ظاہر فرما دی۔ زندہ خدا کا تصور، بعث بعد الموت اور جنت و دوزخ کے متعلق صحیح عقائد کا بیان، سجدہ ملائکہ کی اصل حقیقت، توحید کے خلاف مشرکانہ خیالات کی تردید اور قرآن کریم اور انبیاء علیھم السلام کے متعلق مسلمانوں کے غلط خیالات کی تردید یقیناََ ایک ایسا علمی اور تحقیقی فلسفہ ہے کہ عہد حاضر میں اس حقیقی فلسفہ کی نقاب کشائی کا اصل سہرا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے سر ہے۔ آپؑ اپنے فارسی کلام میں فرماتے ہیں۔
مے شود ملھم از امورِ نہاں
زاں سرائر کہ خاصئہ یزداں بود
تانماید عیاں حقیقت کار
تازند سنگ برسرِ انکار
ترجمہ : خدا تعالیٰ کا نبی مخفی باتوں کا ملہم ہو جاتا ہے یعنی ان رازوں کا جو صرف خدا کا خاصہ ہیں تاکہ اصل حقیقت کو نمایاں کرکے دکھا دے اور تاکہ منکروں کو ہلاک کر دے۔
جسمانی اور روحانی مراتب ستہ کی روح پر ور تفسیر
جسمانی مراتب ستہ کے مقابل پر روحانی مراتب ستہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’خدا تعالیٰ نے اس سورۃ کے ابتداء میں جو سورۃ المئومنون ہے جس میں یہ آیت فَتَبٰرکَ اللہ اَحسَن الخٰلِقِین ہے اس بات کو بیان فرمایا ہے کہ کیونکر انسان مراتب ستہ کو طے کرکے جو اس کی تکمیل کے لئے ضروری ہیں اپنے کمال روحانی اور جسمانی کو پہنچتا ہے سو خدا نے دونوں قسم کی ترقیات کو چھ چھ مرتبہ پر تقسیم کیا ہے اور مرتبہ ششم کو کمال ترقی کا مرتبہ قرار دیا ہے اور یہ مطابقت روحانی اور جسمانی وجود کی ترقیات کی ایسے خارق عادت طور پر دکھلائی ہے کہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے کبھی کسی انسان کے ذہن نے اس نکتہ معرفت کی طرف سبقت نہیں کی اور اگر کوئی دعویٰ کرے کہ سبقت کی ہے تو یہ بارِ ثبوت اس کی گردن پر ہوگا کہ یہ پاک فلاسفی کسی انسان کی کتاب میں سے دکھلائے اور یہ یاد رہے کہ وہ ایسا ہرگز ثابت نہیں کر سکے گا۔‘‘
(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام، جلد ششم، سورۃ المٗومنون)
چنانچہ ان مراتب ستہ کا مختصر خلاصہ یہ ہے انسان کے روحانی وجود کا پہلا مرتبہ حالتِ خشوع اور عجز و نیاز اور سوز و گداز ہے اس کے مقابل پر پہلا مرتبہ جسمانی وجود کے نشوو نما کا نطفہ قرار دیا اور وہ نطفہ ایک محفوظ جگہ میں رکھا۔ روحانی وجود کا دوسرا مرتبہ بموجب آیتِ قرآنی مومن لغو باتوں اور لغو کاموں سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں اس کے مقابل پر جسمانی وجود کا دوسرا مرتبہ اپنے کلامِ عزیز میں علقہ ٹھہرایا ہے۔ روحانی وجود کا تیسرا درجہ وہ ہے کہ مومن پہلی دو حالتوں سے آگے بڑھ کر خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتا ہے زکوٰۃ ادا کرتا ہے اس کے مقابل پر جسمانی وجود کا تیسرا درجہ مُضغۃ قرار دیا یعنی ہم نے علقہ کو بوٹی بنایا جس میں انسان کا وجود ناپاکی سے باہر آتا ہے۔ روحانی وجود کا چوتھا درجہ یہ ہے کہ مومن اپنے تئیں نفسانی جزبات اور شہواتِ ممنو عہ سے بچاتے ہیں۔اس کے مقابل پرجسمانی وجود کا درجہ چہارم ہے جس کے بارے میںقرآن شریف میں یہ آیت ہے فخلقنا المضغہ عظاما یعنی ہم نے مضغہ سے ہڈہاںبنائیں۔پانچواں درجہ وجود روحانی کا یہ ہے کہ مومن اپنے جذبات پر فتح عظیم حاصل کر کے حتی الوسع خدا اور اس کی مخلوق کی تمام امانتوں اور تمام عہدوں کے ہر ایک پہلو کا لحاظ رکھ کر تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس کے مقابل پر جسمانی وجود کا پانچواں درجہ بموجب آیت قرآنی فکسو نا العظام لحماََ یعنی پھر ہم نے ہڈیوں پرگوشت مڑھ دیا۔اور جسمانی بناوٹ کی کسی قدر خوبصورتی دکھلا دی۔چھٹا درجہ وجود روحانی کا یہ ہےکہ مومن اپنی نمازوں پر آپ محافظ اور نگہبان ہیں اور خدا سے ایسا تعلق پیدا ہو جاتا ہے کہ ان کی زندگی کا ہر لمحہ یاد الٰہی میں گزرتا ہے۔ اس کے مقابل پرجسمانی پیدائش کا مرتبہ ششم اللہ تعالیٰ نے نفق روح ٹھہرایا ہے اور فتبارک اللہ احسن الخالقین کہہ کر دونوں کا نکتہ معراج اور علت غائی اپنی عبادت اور پرستش قرار دیا ہے۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس علمی انکشاف پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے مومن کے وجود روحانی کے مراتب ستہ بیان کر کے ان کے مقابل پروجود جسمانی کے مراتب ستہ دکھلائے ہیں یہ ایک علمی معجزہ ہےاور جس قدر کتابیں دنیا میں کتب سماوی کہلاتی ہیں یا جن حکیموں نے نفس اور الٰہیات کے بارے میں تحریریں کی ہیں اور یا جن لوگوں نے صوفیوں کی طرز پر معارف کی باتیں لکھی ہیں کسی کا ذہن ان میں سے اس بات کی سبقت نہیں لے گیا کہ یہ مقابلہ جسمانی اور روحانی وجود کا دکھلاتا۔اگر کوئی شخص میرے اس دعوے سے منکر ہو اور اس کا گمان ہو کہ یہ مقابلہ روحانی اور جسمانی کسی اور نے بھی دکھلایاہے۔تو اس پر واجب ہے کہ اس علمی معجزہ کی نظیر کسی اور کتاب میںسے پیش کر کے دکھلائے اور میں نے تو توریت اور انجیل اور ہندئووں کے وید کو بھی دیکھا ہے۔مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس قسم کا علمی معجزہ میں نے بجز قرآن شریف کے کسی کتاب میں نہ پایا۔
(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام، جلد ششم)
الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک منفرد علمی نکتہ دنیا کے سامنے پیش فرمایا کہ روحانی اور جسمانی وجودوں کے مابین کامل تعلق اور مشابہت ہے اور ان دونوں کا نکتہ معراج اللہ تعالیٰ کی عبادت اور پرستش ہے۔
سیدنا حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’میں بڑے دعوے اور استقلال سے کہتا ہوں کہ میں سچ پر ہوں اور خدائے تعالیٰ کے فضل سے اس میدان میں میری ہی فتح ہے اور جہاں تک میں دور بین نظر سے کام لیتا ہوں تمام دنیا اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں اور قریب ہے کہ میں ایک عظیم الشان فتح پائوں کیونکہ میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے اور میرے ہاتھ کی تقویت کے لئے ایک اور ہاتھ چل رہا ہے۔ جس کو دنیا نہیں دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں۔ میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے۔ جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے اور آسمان پر ایک جوش اور اُبال پیدا ہوا ہے جس نے ایک پتلی کی طرح مشتِ خاک کو کھڑا کر دیا ہے۔ ہر یک وہ شخص جن پر توبہ کا دروازہ بند نہیں عنقریب دیکھ لےگا کہ میں اپنی طرف سے نہیں ہوں۔‘‘
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد نمبر ۳ صفحہ نمبر ۴۰۳)
اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس علمی سرمایہ کو بغور پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین