براہین احمدیہ کی غرض و غایت اور مقاصد

لئیق احمد ڈار مربی سلسلہ نظارت علیاء قادیان

اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ؐ کی پیشگوئیوں کے مطابق اسلام کی نشأۃ ثانیہ کیلئے حضرت مسیح موعودؑ کو مبعوث فرمایا چنانچہ اسلام اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ مذہب ہے۔ اب جب تک سلسلہ آدمیت کا رہے گااسی دین نے ہر ایک مذہبی امر میں صحیح رہنمائی کرنی ہے اور یہی وہ ضابطہ حیات ہے جس کی منسوخی کا کوئی احتمال نہیں۔

اللہ تعالیٰ نے جس پیغمبر کو یہ دین دے کر مامور فرمایا وہ ہمارے پیارے نبی حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو جزیرہ عرب کے شہر مکہ میں 570ء میں پیداہوئے اورآپ پر پہلی وحی ہوکرسن 610ء میں دین اسلام کا ظہور ہوا او ر پھررفتہ رفتہ یہ دین اکناف عالم میں پہنچا۔ اور آج اسی دین کا ہر سو شہرہ ہےاور یہی زندہ مذہب ہے جس کی دھوم سے ہر ایک محو حیرت ہے یہاں خُدا اب بھی بولتا ہے اور اپنے پیاروں کے ذریعہ اپنی ہستی کا پتہ دیتا ہے فالحمد للہ علیٰ ذالک الاحسان!

 قدیم سنت کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ دین پیشگوئیوں کے مطابق مرجھانےلگا۔اور اسکی روشنی مدھم پڑنے لگی اورچہرہ غبارآلود ہوگیا۔ چودہویں صدی میں تو حد ہی ہوگئی کہ ہر طرف سے یہ دین غیروں کے نرغے میں پڑ گیا اور اسکی حالت ناگفتہ بہ ہوگئی۔اس کا کوئی سہارا نظر نہ آرہا تھا۔ ہر دوسرا دین اس پر اُمڈ پڑا۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ کی غیر ت جوش میں آئی۔ چنانچہ ہندوستان کے صوبہ پنجاب کے اسی گمنام گاؤں قادیان میں،جہاں راقم یہ حروف قلمبند کررہا ہے، ایک شخص کا ظہورہوا جو کہ دین محمدیہ کا محی اور اس شریعت کودوبارہ قائم کرنے والا تھا۔چنانچہ یہ عظیم شخص جماعت احمدیہ کے بانی اور ہمارے مطاع حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں  ۔

حقیت دین اسلام اور صدق رسالت مآب حضرت محمد مصطفےٰ  ؐ آپ کی بعثت کا مقصد وحید تھا۔ چنانچہ اوائل سےہی حضوراقدس ؑ اسی خدمت میں مصروف تھے اور آپکی خدمات کا تذکرہ جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں بھرا پڑا ہے۔

اسی مقصد کے حصول کیلئے آپ نےبعثت سے قبل اللہ تعالیٰ کی منشاء پر عظیم الشان کتاب ’براہین احمدیہ ‘تصنیف فرمائی۔ اپریل 1879ءتک اس کی تصنیف کرچکے اور مسودات کا حجم دواڑھائی ہزارصفحات تک پہنچ گیا اور اس میں حضورعلیہ السلام نے 300دلائل قرآن مجید اور نبوت محمدیہ کی تائید میں بیان فرمائے۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اسی کتاب کے مختلف مقامات پر اسکی غرض بیان فرمائی ہے۔چنانچہ اس کتاب کے حصہ اول میں تحریر فرماتے ہیں :۔

’’امّابعد سب طالبان ِحق پر واضح ہو جو مقصود اس کتاب کی تالیف سے، جو موسوم بالبراہین الاحمدیۃ علیٰ حقیۃکتاب اللہ القرآن والنبوۃ المحمدیۃ ہے جو دین ِاسلام کی سچائی کے دلائل اور قرآن مجید کی حقیت کے براہین اور حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی صدق ِرسالت کے وجوہات سب لوگوں پر بوضاحت ِتمام ظاہر کئے جائیں اور نیز ان سب کو جو اِس دینِ متین اور مقدّس کتاب اور برگزیدہ نبی سے منکر ہیں ایسے کامل اور معقول طریق سے ملزم اور لاجواب کیا جائے جو آئندہ ان کو بمقابلہ اسلام کے دم مارنے کی جگہ باقی نہ رہے۔‘‘

(بحوالہ براہین احمدیہّ حصّۂ اوّل ص ۲۳تا ۲۴)

اس زمانہ میں عقائد میں زبردست فساد واقع ہوچکا تھا اوردہریت کا طوفان ہر سمت برپا تھا لہٰذا باطل کی کثرت اشاعت پر مدمقابل حق وراستی کی کثرت اشاعت لازمی امر تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس ماحول کا ذکر کچھ اس طرح فرماتے ہیں :-

’’اے بزرگان و چراغان ِاسلام !آپ صاحب خوب جانتے ہوں گے کہ آجکل اشاعت دلائل حقیت اسلام کی نہایت ضرورت ہے اور تعلیم دینا اور سکھلانا براہین ثبوت اس دین متین کا اپنی اولاد اور عزیزوں کو ایسا فرض اور واجب ہو گیا ہے اور ایسا واضح الوجوب ہےکہ جس میں کسی قدر ایماء کی بھی حاجت نہیں۔ جس قدر ان دنوں میںلو گوں کے عقائد میںبرہمی درہمی ہو رہی ہے اور خیالات اکثر طبائع کے حالت خرابی اور ابتری میں پڑے ہوئے ہیں کسی پر پوشیدہ نہ ہوگا کیا کیا رائیںہیں جو نکل رہی ہیںکیا کیا ہوائیں ہیں جو چل رہی ہیں۔ کیا کیا بخارات ہیں جو اُٹھ رہے ہیں۔ پس جن جن صاحبوں کو ان اندھیریوں سے جو بڑے بڑے درختوں کو جڑھ سے اُکھیڑتی جاتی ہیں کچھ خبر ہے وہ خوب سمجھتے ہوں گے جو تالیف اس کتاب کی بلا خاص ضرورت کے نہیں۔‘‘       (براہین احمدیہ ص ۶تا۷)

اسی سلسلہ میں ایک اور موقعہ پر فرماتے ہیں:۔’’…خُلاصہ کلام یہ ہے کہ جب میں نے ایسے ایسے باطل عقائد میں لوگوں کو مبتلاء دیکھا اور اس درجہ کی گمراہی میںپایا کہ جس کو دیکھ کر جی پگھل آیا اور دل اور بدن کانپ اٹھا۔ تو میں نے ان کی رہنمائی کے لئے اِس کتاب کا تالیف کرنا اپنے نفس پر ایک حقّ ِواجب اور دَینِ لازم دیکھا جو بجز ادا کرنے کے ساقط نہ ہوگا۔ چنانچہ مسودّہ اس کتاب کا خدا کے فضل و کرم سے تھوڑے ہی دنوں میں ایک قلیل بلکہ اقلّ مدّت میں جو عادت سے باہر تھی طیار ہو گیا اور حقیقت میں یہ کتاب طالبانِ حق کو ایک بشارت اور منکران دین اسلام پر ایک حجّت الٰہی ہے کہ جس کا جواب قیامت تک ان سے میسّر نہیںآسکتا اور اسی وجہ سے اس کے ساتھ ایک اشتہار بھی انعامی دس ہزار روپیہ کا شامل کیا گیا کہ تا ہر یک منکر اور معاند پر جو اسلام کی حقیت سے انکاری ہے، اتمام حجت ہو اور اپنے باطل خیال اور جھوٹے اعتقاد پر مغرور اور فریفتہ نہ رہے۔‘‘(روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ ۸۳)

پھر فرماتے ہیں :

’’اے معزّز بزرگانِ اسلام !مجھے اِس بات پر یقین ہے کہ آپ سب صاحبان پہلے سے اپنے ذاتی تجربہ اور عام واقفیت سے ان خرابیوں موجودہ زمانہ پر کہ جن کا بیان کرنا ایک دردانگیز قصّہ ہے، بخوبی اطلاع رکھتے ہوں گے اور جو جو فساد طبائع میں واقعہ ہو رہے ہیں اور جس طرح پر لوگ بباعث اِغوا اور اِضلال وسوسہ اندازوں کے بگڑ تے جاتے ہیں آپ پر پوشیدہ نہ ہوگا۔ پس یہ سارے نتیجے اسی بات کے ہیں کہ اکثر لوگ دلائل حقیتِ اسلام سے بے خبر ہیں اور اگر کچھ پڑھے بھی ہیں تو ایسے مکاتیب اور مدارس میں کہ جہاں علوم دینیہ بالکل سکھائے نہیں جاتے اور سارا عمدہ زمانہ ان کے فہم اور ادراک اور تفکّر اور تدبّر اور علوم اور فنون میں کھویا جاتا ہےاور کوچۂ دین سے محض ناآشنا رہتے ہیں پس اگر ان کو دلائل حقیت اسلام سے جلد تر باخبر نہ کیا جائے تو آخر کار ایسے لوگ یا تو محض دُنیا کے کیڑے ہو جاتے ہیں کہ جن کو دین کی کچھ بھی پروا نہیں رہتی اور یا الحاد اور ارتداد کا لباس پہن لیتے ہیں یہ قول میرا محض قیاسی نہیں بڑے بڑے شرفاء کے بیٹے میں نے اپنی آنکھ سے دیکھے ہیں جو بباعث بے خبری دینی کے اصطباغ پائے ہوئے گرجا گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں اگر فضل عظیم پروردگار کا ناصر اور حامی اسلام نہ ہوتا اوروہ بذریعہ پُر زور تقریرات اور تحریرات علماء اور فضلاء کے اپنے اس سچے دین کی نگہداشت نہ کرتا تو تھوڑا زمانہ نہ گزرنا پاتا جو دُنیا پرست لوگوںکو اتنی خبر بھی نہ رہتی جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس ملک میں پیدا ہوئے تھے بالخصوص اس پر آشوب زمانہ میں کہ چاروں طرف خیالات فاسدہ کی کثرت پائی جاتی ہے اگر محققان دین اسلام جو بڑی مردی اور مضبوطی سے ہر یک منکر اور ملحد کے ساتھ مناظرہ اور مباحثہ کر رہے ہیں اپنی اس خدمت اور چاکری سے خاموش رہیں تو تھوڑی ہی مدّت میں اس قدر شعار اسلام کا ناپدید ہو جائے کہ بجائے سلام مسنون کے گڈبائی اور گڈمارننگ کی آواز سنی جائے پس ایسے وقت میں دلائل حقیت اسلام کی اشاعت میں بدل مشغول رہنا حقیقت میں اپنی ہی اولاد اور اپنی ہی نسل پر رحم کرنا ہے کیونکہ جب وبا کے ایام میں زہر ناک ہوا چلتی ہے تو اس کی تاثیر سے ہر یک کو خطرہ ہوتا ہے۔ شاید بعض صاحبوں کے دل میں اس کتاب کی نسبت یہ وسوسہ گزرے کہ جو اب تک کتابیں مناظرات مذہبی میں تصنیف ہو چکی ہیں کیا وہ الزام اور افحام مخاصمین کے لئے کافی نہیں ہیں کہ اس کی حاجت ہے لہٰذا میں اس بات کو بخوبی منقوش خاطر کردینا چاہتا ہوں جو اس کتاب اور ان کتابوں کے فوائد میں بڑا فرق ہے وہ کتابیں خاص خاص فرقوں کے مقابلہ پر بنائی گئی ہیں اور ان کی وجوہات اور دلائل وہاں تک ہی محدود ہیں جو اس فرقہ خاص کے ملزم کرنے کے لئے کفایت کرتی ہیں اور گو وہ کتابیں کیسی ہی عمدہ اور لطیف ہوں مگر ان سے وہی خاص قوم فائدہ اُٹھا سکتی ہے کہ جن کے مقابلہ پر وہ تالیف پائی ہیں لیکن یہ کتاب تمام فرقوں کے مقابلہ پر حقیت اسلام اور سچائی عقائد اسلام کی ثابت کرتی ہے اور عام تحقیقات سے حقانیت فرقان مجید کی بپایہ ثبوت پہنچاتی ہے اور ظاہر ہے کہ جو جو حقائق اور دقائق عام تحقیقات میں کھلتے ہیں خاص مباحثات میں انکشاف ان کا ہرگز ممکن نہیں کسی خاص قوم کے ساتھ جو شخص مناظرہ کرتا ہے اس کو ایسی حاجتیں کہاں پڑتی ہیں کہ جن امور کو اس قوم نے تسلیم کیا ہوا ہے ان کو بھی اپنی عمیق اور مستحکم تحقیقات سے ثابت کرے بلکہ خاص مباحثات میں اکثر الزامی جوابات سے کام نکالا جاتا ہے اور دلائل معقولہ کی طرف نہایت ہی کم توجّہ ہوتی ہے اور خاص بحثوں کا کچھ مقتضاہی ایسا ہوتا ہے جو فلسفی طورپر تحقیقات کرنے کی حاجت نہیں پڑتی اور پورےدلائل کا تو ذکر ہی کیا ہے بستم حصّہ دلائل عقلیہ کا بھی اندراج نہیں پاتا۔۔ ۔‘ ‘ (براہین احمدیہ حصہ اوّل ص ۷تا۸)

پھر ان حالات میں دفاع اسلام کیلئےکُتب تو کئی لکھی گئی تھیں تو حضرت مسیح موعودؑ اس مہم کیلئے کیوں کمربستہ ہوئے ؟یہ تحصیل حاصل والا معاملہ تو نہیں یہ سوال کہیں ذہنوں میں نہ اُٹھے تو اس کا جواب بھی آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کچھ اس طرح سے تحریر فرماتے ہیں:۔

’’قبل ازیں جو کتب الزام اور افحام مخاصمین و معاندین لکھی جاتی رہیں وہ خاص خاص فرقوں کے مقابلے پر رقم ہوئیں اور ان کتب کی براہین اور وجوہات اور دلائل وہاں تک ہی محدود تھیں جو ا س خا ص فرقہ کے ملزم کرنے کے لئے کافی تھیں لیکن براہین احمدیہ ّتمام فرقوں کے مقابلے میں عام تحقیقات کے ساتھ تالیف ہوئی جو ہر ایک فرقہ کے مقابلہ پر سچائی اور حقیت، اسلام کی دلائل عقلیہّ سے ثابت کرے کہ جن کے ماننے سے کسی کو چارہ نہیں۔ سو الحمد للہ کہ ان مقاصد کے پوٗرا کرنے کے لئے یہ کتاب طیار ہوئی۔ اس سے یہ بھی غرض تھی کہ اجمالی طور پر اظہار دین اور اتمام حجّت بر اَدیان باطلہ ہو‘‘۔

(بحوالہ براہین احمدیہ حصہّ دوم ص ۵۶تا ۵۷)

نیز اسی حوالہ سے مزید ایک جگہ فرماتے ہیں :۔

’’۔۔۔پھر کھول کر بیان کیا جاتا ہے کہ کتاب براہین احمدیہ بغیر اشدّ ضرورت کے نہیں لکھی گئی۔ جس مقصد اور مطلب کے انجام دینے کے لئے ہم نے اس کتاب کو تالیف کیا ہے اگر وہ مقصد کسی پہلی کتاب سے حاصل ہو سکتا تو ہم اُسی کتاب کو کافی سمجھتے اور اسی کی اشاعت کے لئے بدل و جان مصروف ہو جاتے اور کچھ ضرور نہ تھاکہ جو ہم سالہا سال اپنی جان کو محنت ِشدید میں ڈال کر اور اپنی عمرِ عزیز کا ایک حصّہ خرچ کرکے پھر آخر کار ایسا کام کرتے جو محض تحصیل حاصل تھا۔ لیکن جہاں تک ہم نے نظر کی ہم کو کوئی کتاب ایسی نہ ملی، جامع ان تمام دلائل اور براہین کی ہوتی کہ جن کو ہم نےاس کتاب میں جمع کیا ہے اور جن کا شائع کرنا بغرض اثبات حقیتِ دین ِاسلام کے اس زمانہ میں نہایت ضروری ہے تو ناچار واجب دیکھ کر ہم نے یہ تالیف کی۔ اگر کسی کو ہمارے اس بیان میں شبہ ہو تو ایسی کتاب کہیں سے نکال کر ہم کو دکھا دے تا ہم بھی جانیں ورنہ بیہودہ بکواس کرنا اور ناحق بندگان خدا کو ایک چشمہ فیض سے روکنا بڑا عیب ہے۔

مگر یاد رہے جو اس مقولہ سے کسی نوع کی خود ستائی ہمارا مطلب نہیں جو تحقیقات ہم نے کی اور پہلے عالی شان فضلاء نے نہ کی یا جو دلائل ہم نے لکھیں اور انہوں نے نہ لکھیں یہ ایک ایسا امر ہے جو زمانہ کے حالات سے متعلق ہے نہ اس سے ہماری ناچیز حیثیت بڑھتی ہے اور نہ ان کی بلند شان میں کچھ فرق آتا ہے۔ انہوں نے ایسا زمانہ پایا کہ جس میں ابھی خیالاتِ فاسدہ کم پھیلے تھے اور صرف غفلت کے طور پر باپ دادوں کی تقلید کا بازار گرم تھا سو ان بزرگوں نے اپنی تالیفات میں وہ روش اختیار کی جو اُن کے زمانہ کی اصلاح کے لئے کافی تھی۔ ہم نے ایسا زمانہ پایا کہ جس میں بباعث زور خیالاتِ فاسدہ کے وہ پہلی روش کافی نہ رہی بلکہ ایک پُر زور تحقیقات کی حاجت پڑی جو اس وقت کی شدّت فساد کی پوری پوری اصلاح کرے۔ پس ہمارے معترضین اگر ذرا غور کرکے سوچیں گے تو ان پر بہ یقینِ کامل واضح ہو جائے گا کہ جن انواع و اقسام کے مفاسد نے آج کل دامن پھیلا رکھا ہے اُن کی صورت پہلے فسادوں کی صورت سے بالکل مختلف ہے۔ وہ زمانہ جو کچھ عرصہ پہلے اس سے گزر گیا ہے وہ جاہلانہ تقلید کا زمانہ تھا۔ اور یہ زمانہ کہ جس کی ہم زیارت کر رہے ہیں یہ عقل کی بد استعمالی کا زمانہ ہے۔ پہلے اس سے اکثر لوگوں کو نامعقول تقلید نے خراب کر رکھا تھا اور اب فکر اور نظر کی غلطی نے بہتوں کی مٹی پلید کر دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن دلائلِ عمیقہ اور براہینِ قاطعہ لکھنے کی ہم کو ضرورتیں پیش آئیں، وہ ان نیک اور بزرگ عالموں کو کہ جنہوں نے صرف جاہلانہ تقلید کا غلبہ دیکھ کر کتابیں لکھی تھیں پیش نہیں آئی تھیں۔ ہمارے زمانہ کی نئی روشنی (کہ خاک بر فرق ایں روشنی)نَوآزمودوں کی روحانی قوّتوں کو افسردہ کر رہی ہے۔ ان کے دلوں میں بجائے خُدا کی تعظیم کے اپنی تعظیم سما گئی ہے اور بجائے خدا کی ہدایت کے آپ ہی ہادی بن بیٹھے ہیں۔ اگر چہ آج کل تقریباً تمام نو آموزوں کا قدرتی میلان وجوہات عقلیہ کی طرف ہو گیا ہے لیکن افسوس !کہ یہی میلان بباعث عقل نا تمام اور علم ِخام کے بجائے رہبر ہونے کے رہزن ہوتا جاتا ہے۔ فکر اور نظر کی کجروی نے لوگوں کے قیاسات میں بڑی بڑی غلطیاں ڈال دی ہیں اور مختلف رایوں اور گوناگوں خیالات کے شائع ہونے کے باعث سے کم فہم لوگوں کے لئے بڑی بڑی دقتیں پیش آگئی ہیں۔ سوفسطائی تقریروں نے نو آموزوں کی طبائع میں طرح طرح کی پیچید گیاں پید اکر دی ہیں۔ جو امور نہایت معقولیت میں تھے وہ اِن کی آنکھوں سے چُھپ گئے ہیں۔ جو باتیں بغایت درجہ نا معقول ہیں ان کو وہ اعلیٰ درجہ کی صداقتیں سمجھ رہے ہیں۔ وہ حرکات جو نشاء انسانیت سے مغائر ہیں ان کو وہ تہذیب خیال کئے بیٹھے ہیںاور جو حقیقی تہذیب ہے اس کو وہ نظر ِاستخفاف اور استحقار سے دیکھتے ہیںپس ایسے وقت میں اور ان لوگوں کے علاج کے لئے جو اپنے ہی گھر میں محقّق بن بیٹھے ہیںاور اپنے ہی منہ سے میاں مٹھو کہلاتے ہیں ہم نے کتاب براہین احمدیہ کو جو تین سو براہین قطعیہ عقلیہ پر مشتمل ہے بغرض اثبات حقانیت قرآن شریف جس سے یہ لوگ بکمال نخوت منہ پھیر رہے ہیں تالیف کیا ہے۔ کیونکہ یہ بات اجلیٰ بدیہات ہے جو سر گشتۂ عقل کو عقل ہی سے تسلی ہو سکتی ہے اور جو عقل کا رہزدہ ہے وہ عقل ہی کے ذریعہ سے راہ پر آسکتا ہے۔

اب ہر یک مومن کے لئے خیال کرنے کا مقام ہے کہ جس کتاب کے ذریعہ سے تین سو دلائل عقلی حقیت قرآن شریف پر شائع ہو گئیں اور تمام مخالفین کے شبہات کو دفع اور دُور کیا جائے گا وہ کتاب کیا کچھ بندگان خُدا کو فائدہ پہنچائے گی اور کیسا فروغ اور جاہ و جلال اسلام کا اِس کی اشاعت سے چمکے گا ایسے ضروری امر کی اعانت سے وہی لوگ لاپرواہ رہتے ہیںجو حالت موجودہ زمانہ پر نظر نہیں ڈالتے۔ اور مفاسد منتشرہ کو نہیں دیکھتے اور عواقب امور کو نہیں سوچتے یا وہ لوگ کہ جن کو دین سے کچھ غرض ہی نہیں اور خُدا اور رسول سے کچھ محبّت ہی نہیں۔ اے عزیزو!!اِس پُرآشوب زمانہ میں دین اسی سے برپا رہ سکتا ہے جو بمقابلہ زورِ طوفان گمراہی کے دین کی سچائی کا زور بھی دکھایا جاوے اور ان بیرونی حملوں کے جو چاروں طرف سے ہو رہے ہیں حقّانیت کی قوی طاقت سے مدافعت کی جائے۔ یہ سخت تاریکی جو چہرۂ زمانہ پر چھا گئی ہے یہ تب ہی دُور ہوگی جب دِین کی حقیت کے براہین دُنیا میں بکثرت چمکیں اور اس کی صداقت کی شعاعیں چاروںطرف سے چھوٹتی نظر آویں۔ اس پراگندہ وقت میں وہی مناظرہ کی کتاب روحانی جمعیت بخش سکتی ہے کہ جو بذریعہ تحقیق عمیق کے اصل ماہیت کے باریک دقیقہ کی تہہ کو کھولتی ہو اور اس حقیقت کے اصل قرارگاہ تک پہنچاتی ہو کہ جس کے جاننے پر دلوں کی تشفّی موقوف ہے۔۔ ۔‘‘

(روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ ۶۴تا ۶۹، طبع از قادیان سن اشاعت ۲۰۰۸ء)

(7)پھر حضرت بانی ٔسلسلہ عالیہ احمدیہّ علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کتاب کی غرض و غایت کے ضمن میں یہ بھی تحریر فرماتے ہیں کہ:۔

 ’’ہر ایک صاحب کی خدمت میں جو اعتقاد اور مذہب میں ہم سے مخالف ہیں۔ بصد ادب اور غربت عرض کی جاتی ہے جو اس کتاب کی تصنیف سے ہمارا ہرگز یہ مطلب اور مدّعا نہیں جو کسی دل کو رنجیدہ کیا جائے یا کسی نوع کا بے اصل جھگڑا اٹھایا جائے، بلکہ محض حقّ اور راستی کو ظاہر کرنا مُراد دلّی اور تمنّائے قلبی ہے اور ہم کو ہرگز منظور نہ تھا کہ اِس کتاب میں کسی اپنے مخالف کے خیالات اور عندیات کا ذکر زبان پر لاتے، بلکہ اپنے کام سے کام تھا، اور مطلب سے مطلب۔ مگر کیا کیجئے کہ کامل تحقیقات اور باستیفاء بیان کرنا جمیع اصولِ حقہّ اور ادلۂ کاملہ کا اِسی پر موقوف ہے کہ ان سب اربابِ مذاہب کا جو بر خلاف اصول حقہّ کے رائے اور خیال رکھتے ہیں غلطی پر ہونا دکھلایا جائے۔ پس اس جہت سے ان کا ذکر کرنا اور ان کے شکوک کو رفع دفع کرنا ضروری اور واجب ہوا۔ اور خود ظاہر ہے کہ کوئی ثبوت بغیر رفع کرنے عذرات فریق ثانی کے کما حقہّ اپنی صداقت کو نہیں پہنچتا۔ مثلاً۔جب ہم اثبات ِوجود صانع عالم کی بحث لکھیں تو تکمیل اس بات پر موقوف ہوگی جو دہریہ یعنی منکرین وجود خالق کائنات کے ظنون ِفاسدہ کو دُور کیا جائے اور جب ہم حضرت باری کے خالق الارواح و الاجسام ہونے پر دلائل قائم کریں تو ہم پر انصافاًلازم ہے جو آریہ سماج والوں کے اوہام اور وساوس کو بھی جو خدا تعالیٰ کے خالق ہونے سے منکر ہیں، مٹادیں اور جب ہم ضرورت الہام کی دلائل تحریر کریں تو ہم پر ان شبہات کا ازالہ کرنا بھی واجب ہوگا جو برہمو سماج والوں کے دلوں میںمتمکّن ہو رہے ہیں۔علاوہ اس کے یہ بات بھی نہایت پختہ تجربہ سے ثابت ہے کہ اس زمانہ کے مخالفین اسلا م کی یہ عادت ہو رہی ہے کہ جب تک اپنے اصول مسلّمہ کو باطل اور خلافِ حق نہیں دیکھتے اور اپنے مذہب کے فساد پر مطّلع نہیں ہوتے، تب تک راستی اور صداقت دین اسلام کی کچھ بھی پرواہ نہیں رکھتے۔ اورگو آفتاب صداقت دین الٰہی کا کیسا ہی انکو چمکتا نظر آوے، تب بھی اس آفتاب سے دوسری طرف منہ پھیر لیتے ہیں۔ پس جبکہ یہ حال ہے تو ایسی صورت میں دوسرے مذاہب کا ذکر کرنا نہ صرف جائز بلکہ دیانت اور امانت اور پوری ہمدردی کا یہی مقتضا ہے جو ضرور ذکر کیا جائے اور ان کے اوہام کے مٹانے اور ان کے عقائد کے بطلان ظاہر کرنے میں کسی طرح کی فروگذاشت اور کسی طور کا اخفاء نہ رکھا جائے۔ بالخصوص جبکہ وہ لوگ ہماری دانست میں صراط ِمستقیم سے دُور اور مہجور ہیں اور ہم اپنے سچّے دل سے ان کو خطا پر سمجھتے ہیں اور ان کے اُصو ل کو حقّ کے بر خلاف جانتے اور ان کا انہیںعقائد پر اس عالم فانی سے کوچ کرنا موجب عذاب ِعظیم یقین رکھتے ہیں تو پھر اس صورت میں اگر ہم ان کی اصلاح سے عمداً چشم پوشی کریں اور ان کا گمراہ ہونا اور دوسرے لوگوں کو گمراہی میں ڈالنا دیدہ و دانستہ روا رکھیں تو پھر ہماراکیا ایمان اور کیا دین ہوگا اور ہم اپنے خدا کو کیا جواب دیویں گے۔ اور اگرچہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض دُنیا پرست آدمی کہ جن کو خدا اور خُدا کے سچّے دین کی کچھ بھی پرواہ نہیںان کو اپنے مذہب کی خرابیاںیا اسلام کی خُوبیاں سنکر بڑا رنج دل میں گزرے گا اور مونہہ بگاڑیں گے اور کچھ کا کچھ بولیں گے۔ مگر ہم اُمید رکھتے ہیں کہ ایسے طالب ِصادق بھی کئی نکلیں گے جو اِس کتاب کے پڑھنے سے صراطِ مستقیم کو پاکر جناب الٰہی میں سجدہ ہائے شُکر ادا کریں گے اور خُدا نے جو ہم کو سمجھایا ہے وہ ان کو بھی سمجھا دے گا اور جو کچھ ہم پر ظاہر کیا ہے وہ ان پر بھی ظاہر کردے گا۔ اور حقیقت میں یہ کتاب انھیں کے لئے تصنیف ہوئی ہے اور یہ سارا بوجھ ہم نے انہیں کے لئے اُٹھایا ہے۔ وہی ہمارے حقیقی مخاطب ہیں اور ان کی خیر خواہی اور ہمدردی ہمارے دل میں اس قدر بھری ہے کہ نہ زبان کو طاقت ہے کہ بیان کرے اور نہ قلم کو قوّت ہے کہ تحریر میں لاوے۔۔

بدل دردے کہ دارم از برائے طالبان ِحق

نمی گردد بیاں آں درد از تقریر کوتاہم

دل و جانم چناں مستغرق اندر فکر او شاں است

کہ نے از دل خبر دارم نہ از جان خود آگاہم

مرا مقصود و مطلوب و تمنّا خدمت ِخلق است

ہمیں کارم ہمیں بارم ہمیں رسمم ہمیں راہم

(روحانی خزائن، جلد اوّل ص ۷۱ تا ۷۳،طبع از قادیان سن اشاعت ۲۰۰۸ء)

براہین احمدیہ شائع ہونے سے پیشتر اس کی خرید کے حوالہ سے اشتہار دئیے جانے پر کوئی سادہ لوح کچھ اور نہ خیال کرے اس بارہ میں یہ واضح ہو کہ اس کتاب کا مقصد کوئی تجارت اور کمائی پیدا کرنا نہ تھا۔ اس طرح کے وسوسے کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر بشارت احمد صاحب لکھتے ہیں:۔

’’براہین احمدیہّ کی تصنیف تجارت کے لحاظ سے تو بہت خسارہ کا سودا تھا۔کیونکہ مشکل سے خرچ بھی پورا نہ پڑتا تھا لیکن آپ کا مقصد کوئی تجارت نہ تھی بلکہ خدمت دین تھا۔ چنانچہ آپؑ تحریر فرماتے ہیں :۔

’’بعض صاحبوں کی سمجھ پر رونا آتا ہے جو وہ بر وقت درخواست اعانت کے یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم کتاب کو بعد تیاری کتاب کے خرید لیں گے پہلے نہیں۔ اُن کو سمجھنا چاہئیے کہ یہ کچھ تجارت کا معاملہ نہیں اور مؤلف کو بجز تائید دین کے کسی کے مال سے کچھ غرض نہیں۔اعانت کا وقت تو یہی ہے کہ جب طبع کتاب میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ ورنہ بعد چھپ چُکنے کے اعانت کرنا ایسا ہے جیسے بعد تندرستی دوا دینا۔ پس ایسی لاحاصل اعانت سے کس ثواب کی توقع ہوگی‘‘

(بحوالہ مجدّداعظم مؤلّفہ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب ص۱۰۴)

قارئین کرام !حضرت اقدس مسیح موعود ؑکےمندرجہ بالا سنہرے الفاظ میں اس عظیم الشان کتاب کے رقم کرنے کے مقاصدکے تعلق سے بیان ہوچکا ہے ۔ براہین اور دلائل نیرہ سے حضوراقدس ؑنے دین اسلام کی حقیت اور آنحضرت ؐ کی رسالت کی صداقت کے سیر حاصل ثبوت اس کتاب لاجواب میںپیش فرمائے ہیں نیز بیش بہا انعام کے ساتھ دُنیا کو چیلنج دیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ آج تک کوئی ماں کا لال مد مقابل کھڑا نہ ہوسکا بلکہ ہر ایک جس نے ذرا ارادہ بھی کیا تو اس پر ہیبت طاری ہوکر وہ اُلٹے پاؤں لوٹ گیا۔ اس کتاب کو غلبہ اسلام کا ایک مرقع قراردیا جانا کچھ بے جانہ ہوگا۔ہر دوسرے مذہب کا بطلان ثابت کرکے گویا یہ بتایا ہے کہ ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ۔ اور یہ ثابت کردکھایا ہے کہ اب نجات کا راستہ صرف اسلام ہی ہے اور کوئی دین نہیں ۔اور یہ راستہ اختیار نہ کرکے جہاں اسی جہان میں انسان سزا سے حصہ پالیتا ہے اور آخرت میں نقد عذاب عظیم پانے کیلئے تیار ہوجاتاہے۔

اللہ تعالیٰ دُنیا کو حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ حضرت اقدس محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل ہوکر دونوں جہاں میں سرخ رو فرمائے اور ہم سب کو صحیح معنوں میں دین محمد ﷺ کی پیروی اوراس سچے اور آخری دین کی تبلیغ کماحقہ کرنے کی توفیق عطافرمائے آمین ! قارئین سے گزارش ہے کہ براہین احمدیہ کو ضرور پڑھیں اور باربار پڑھنے کی عادت ڈالیں ۔اس کتاب کو پڑھنے سے نئے نکات اور معارف کا درکھل جاتا ہے اور عقل کو جِلاء ملتی ہے۔اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پرہزارہزار رحمتیں اور برکتیں نازل کرے کہ جن کی بدولت یہ عظیم سوغات ہمیں ملی ہے۔ اللھم صل علیٰ محمد وال محمد وعلیٰ عبدہ المسیح الموعود!

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)