ماہ رمضان ہے ابر باراں (اداریہ – اپریل ۲۰۲۱)

ماہ رمضان ہے ابر باراں

جس طرح رحمت باراں خشک زمینوں کی سرسبزی اور شادابی کاباعث ہوتی ہے اسی طرح ماہ رمضاں مردہ طبیعتوں کو محرک کرتا ہے۔اس ماہ مبارک میں بعض کی طبیعتوںمیںروحانیت کا بیج بویا جاتاہےاورپھروہ وقت کےساتھ ساتھ پروان چڑھتا رہتا ہے۔ کئی روزےداروں میںروحانی زندگی کی رمق پیدا ہو جایا کرتی ہے۔ اور جو انسانی فطرت پہلے سے روحانیت کا نوررکھتی ہیں انکو نور میں اور اضافہ ہوجاتاہے یوں وہ نورعلیٰ نور کے مصداق بن جاتے ہیں ۔اس ماہ مبارک کوسید الرسل ﷺ نے سید الشھور یعنی تمام مہینوں کا سردار قراردیاہے۔ اسکی یہ سرداری اس ماہ کے روحانی فیض کی وجہ سے ہے۔ اور جو اس ماہ کے روزے ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھتاہے وہی اصل فاتح اور سید ہے اور گروہ سعید میں شمار کیا جاتاہےکیونکہ و ہ اپنے نفس امارہ کو زیر کرنے میں کامیاب ہوجاتاہے اور نفس امارہ کی سرکوبی ہی ایک حقیقی مومن کا مطمح نظر اور مقصد حیات ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے کیا خوب فرمایاہے کہ

 تم نے دنیا بھی جو کی فتح تو کچھ بھی نہ کیا

نفس وحشی و جفاکش گر را م نہ ہو

روزوں کی اصل غرض یہی ہے کہ انسان اپنے نفس کو زیر کرے اور اپنے اندر اخلاقی تبدیلی پیداکرے۔ بھوکاپیاسارکھناشریعت اسلامی کامقصد نہیں ۔جو شخص جھوٹ بولنااور جھوٹی کارروائیوں سے باز نہیں آتااس کاروزہ رکھنا عبث اور بے فائدہے۔آج کل بھوک ہڑتال کا عام رواج ہے اور کئی لوگ ہیں کہ کئی کئی دن بھوک ہڑتال پر چلے جاتے ہیں۔ایک روزے دار اس طرح انکا مقابلہ نہیں کرسکتا۔جسطرح اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ قربانیوں کا گوشت اورخون خداتعالیٰ تک نہیں پہنچتابلکہ قربانی کرنے والے کی نیت پر ثواب مترتب ہوتاہے اسی طرح روزےدارکی بھوک پیاس اصل مقصو د نہیں ہے بلکہ اصلاح اعمال اور تزکیہ نفس ہے۔

اس ماہ مبارک میں تزکیہ نفوس اور حصول جنت کے بےشمار ذرائع میسر آتے ہیں۔نماز تہجد اور دوسری نوافل کے پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔اورنوافل سے خداتعالیٰ کا قرب حاصل ہو جاتا ہے۔ روزے دار کو توبہ واستغفار کاموقعہ ملتاہے۔توبہ کی قبولیت ہی ایک بندے کی حقیقی عید کہلاتی ہے۔کیونکہ ایک بندہ جب اپنے خالق و مالک کو رازی کرلیتاہے تو وہ اپنی مراد کو پہنچ جاتاہے۔ اسی طرح ایک روزے دار کو غرباء کی بھوک اور پیاس کا بھی احساس ہوتاہے اسکے اندر غرباء کے تئیں ہمدردی اورمواسات کے جذبات فروغ پاتےہیں۔یعنی اس ماہ میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادئیگی کے بہترین مواقع ہاتھ آتےہیں۔آجکل دنیا میں غرباء اور امراء کے درمیان خلیج گہری ہوتی جارہی ہے۔ کروناوائرس میں بھی امیر اور زیادہ امیر ہوگئے اور غرباء غربت کے بھنور میں پھنستے چلے جارہے ہیں ۔اس طرح امراء اور غرباء کے درمیان دشمنی اور رقابت بڑھنے کے کافی امکان ہیں ۔ان حالات میں رمضان امن کاپیغام لیکر آیاہے کہ امیر اپنے غریب بھائیوں کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھیں اور ان پر خرچ کرکے اس دنیا میں سرخ رو ہوں اور آخرت کے ثواب کے بھی حقدا ر ہوں ۔

پاس ہو ما ل تودو اس سے زکوٰۃ وصدقہ

فکر مسکیں رہے تم کو غمِ ایام نہ ہو

 نیاز احمدنائک

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)