کیا کرونا وائرس کے سامنے مذہب گھٹنے ٹیک رہا ہے (اداریہ – اپریل ۲۰۲۰ )

کروناوائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہواہے۔چاورں طرف خوف کا سماں ہے۔اس صورتحال میں مثبت پہلو یہ ابھر کےسامنے آرہاہے کہ لوگوں میں ہمدردری اورمروت کا جذبہ ابھر رہاہے۔ انسان جو معاش اورمصروفیت کے نام پہ نہ اپنے اندر جھانک پارہاتھااورنہ اپنے معاشرے میں ضرورتمندوں کاخیال رکھ رہاتھااچانک اپنے گھر میں محصور ہوکر ان سب کی طرف اپنا دھیان مبذول کررہاہے۔بکھری ہوئی فیملیاں پھر اکھٹی ہورہی ہیں۔ اس ناگہانی آفت کی وجہ سے اگر چہ معاشی اورسیاسی طاقتیں بے بس نظر آرہی ہیں تاہم مذہب ہدف تنقید بن رہاہے۔ کچھ غلط اور کٹر مذہبی رجحانات کی وجہ سے کچھ دہریہ اوراسلام دشمن عناصر اپنا منفی کردار ادا کررہے ہیں۔

مذہب کے معترضین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس وقت جبکہ لوگوں کو خدا کی سب سے زیادہ ضرورت تھی مساجد اور عبادت گاہوں کو خالی کر دیا گیاہے۔ جن جگہوں کو انسانیت کی خیر وبھلائی اورنجات اورحفاظت کی جگہ قرار دیا جاتاتھا وہی آج ویران اورسنسان پڑی ہیں۔ایسے میں مذہب ایک غیر اہم اورغیر ضروری چیز بن جاتی ہے۔

مذہب دوااورتدبیر سے نہیں روکتا

دہریہ حضرات کا یہ خیال کہ سائینس دان اورڈاکٹرز اس وائرس کا علاج ڈھونڈ نکالیں گے تو خدا پر ایمان رکھنے کی کیا ضرورت ہے ایک غلط خیال ہے۔ یہ خیالی عمارت اس بات پر کھڑی کی گئی ہے کہ مذہب ظاہر ی تدبیر اور علاج و معالجہ کی ترغیب دئے بغیر ہی خداپر ایمان لانے کا معتقد ہے۔ جبکہ حضورﷺ کی واضح حدیث ہے کہ پہلے اونٹ کا گھٹنہ باندھوں اس کے بعد خدا پر توکل کرو۔یہ ایک حقیقت ہے کہ سائنس دان اپنے آرام و راحت کو تیاگ کر دکھی انسانیت کے لئے اس وائرس کے علاج میں کوشاں ہیں۔ لیکن جس خالق ومالک نے ان سائنس دانوں کو پیدا کیا اور اس کائنات میں ایسے وسائل و وسائط پیدا کئے جن سے ایسی مہلک بیماریوں کا علاج ممکن ہوتاہے اسکو کیونکر نظر انداز کیا جاسکتاہے۔ آخر اسی کی ذات ہےجو کوششوں کو بارآور کرتی ہے اور انکو ضاٗئع ہونے سے بچاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کئی دنیا پرست لوگوں اس وقت آسمان کی طرف نگاہ کررہے ہیں آسمانی اور غیبی مدد کے طلبگار ہیں۔

خدا صرف مسجد یا عبادت گاہوں میں ہی محصور نہیں ہے

موجودہ صورتحال میں مساجد اوردیگر عبادت گاہوں کا خالی ہونا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ خد اکی عبادت نہیں ہورہی ہے۔ ہمارا اصل معبود و مقصود خدا کی ذات ہے نہ کہ مسجد۔ جیساکہ قرآن کریم میں بھی آیا ہے کہ رب کعبہ کی عبادت کرو۔خدا کو کسی مسجد یا مندر میں محصو ر اورمقید نہیں کیا جاسکتا۔انسان کو عبادت کی ضرورت ہے نہ کہ خدا کو۔ دین اسلام آسانی کا نام ہے۔ یہ اپنے پیروکاروں کے لئے آسانی چاہتاہے اور انکی صحت اور جیون کا خیال رکھتاہے۔اور ان پر ایسابوجھ نہیں ڈالتاجو ان کی طاقت سے باہر ہو۔اگر ایک مسلمان کھڑا ہوکر نماز ادا نہیں کرسکتاہے تو اسے بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت ہے حتی کہ بعض حالات میں اشاروں سے بھی پڑھنے کی رخصت دی گئی ہے۔ اورپھر ساری زمین کو مسجد قرار دیا گیاہے۔ کہیں بھی انسان نماز پڑھ لے اسکی نماز ادا ہوجائے گی۔ اگر کوئی یہ سوال کرے کہ پھر مسجدیں کیوں بنائی جاتی ہیں۔تو یاد رکھنا چاہئے کہ علاوہ مختلف مقاصد واغراض کے تعمیر مسجد کی ایک بڑی غرض یہ ہے کہ انسان دوسروں سے میل ملاپ رکھے اور دوسروں کے حالات اورسکھ دکھ سے باخبر رہے اور اپنے بھائی کی تنگدستی اورضرورت سے اطلاع پاکر اس کی ضرورت پوری کرے۔ اسی غرض کی بناء پر مساجد میں باجماعت نمازاداکرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ عبادت گاہیں خالی ہورہی ہیں اورمعبود میدان چھوڑ کے بھاگ گئے ہیں بودا اور بےبنیاد ہے۔ساتھ ہی اس سے دہریہ حضرات کا مذہب کے تئیں بغض بھی ظاہر ہورہاہے۔

کیا بعض حالات میں مسجد جانا ترک کیا جاسکتاہے

بانی اسلام حضرت محمد مصطفےﷺ نے سخت بارش میں اپنے گھروں میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے اور موذن سےکہا کہ اذان میں یہ الفاظ ملادو کہ حی علیٰ الصلوٰۃ کے بجائے صلوا فی بیوتکم یعنی اپنے گھروں میں نماز ادا کرو۔اس سے دین اسلام کی وسعت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ اسلام انسانی جان کا احترام کرتاہے اور اسے ہلاکت میں ڈالنے سے منع کرتاہے۔ اگر حفظ ماتقدم کے طور پر مسجد جانے سے اعراض کیا جائے تویہ ایک لحاظ سے قابل تحسین اورقابل ستائیش امر ہے۔ اسلام نے تو بدبودا ر چیزیں جیسے پیاز، لہسن وغیر کھا کر مسجد جانے سے منع کیا ہے۔ یہاں وائرس کی وجہ سے تو انسانی جان کو خطرہ لاحق ہوجاتاہے تو اسلام جو انسانی جان کے تحفظ کا علمبردار ہے کیونکر ہلاکت کو دعوت دے سکتا ہے۔

بعض دہریہ حضرات کا یہ بھی کہنا ہے کہ عمرہ اورحج کو بند ہی کر دینا چاہئے کیونکہ عمرہ اورحج کو معطل کرکے مذہب نے اس وائرس کے سامنےگھٹنے ٹیک دئے ہیں۔ یہ عتراض برائے اعتراض ہے۔ اس وقت جبکہ سوشل ڈسٹنسگ کی بات کی جارہی ہے اگر یہ زیارتیں جارہی رہتی تویہی لوگ تنقید کرنے والوں کی پہلی صف میں ہوتے۔ جب وقت کے تقاضے کے مطابق صحیح تدبیر کی گئی تو بھی اعتراض سے باز نہیں رہے۔حج اورعمرہ کے لئے ماحول کا شانت اورپرامن ہونا ضروری امر ہے۔ اگر انسان کی صحت اورراستے کا پر امن نہ ہونا روک بن رہا ہوتو یہ عبادات واجب نہیں ہوتی۔ پھر رسو ل اللہﷺ نے صلح حدیبیہ کے موقعہ پر عمرہ نہ کر کے اپنے اسوہ سے بتا دیاکہ اگر راستہ پرامن نہ ہوتو یہ زیارت ضروری نہیں ہوجاتی۔

سائنس پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے

ایک مشہور دہریہ ارنیسٹ ہیمنگ وئے(Earnest hemingway کا قول کہ‘‘ سارے عقلمند انسان دہریہ ہیں’’کودہریہ طبقہ میں کافی پذیرائی ملی ہے۔ یہ ایک خیال خام ہے جس کی کوئی بھی تاریخی حقیقت نہیں ہے۔ تاریخ میں بہت سارے سائینس داں گزرے ہیں جو مذہب پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ سائینس انکی ایجادات اورانکشافات کا مرہون منت ہے۔مذہبی سائنس دان کا سائینس کے تئیں کردار ایک الگ، طویل اوردرخشندہ باب ہے۔ لہذا مذہب پر کسی ایک طبقہ کی اجارہ داری کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔

مذہبی عبادت گاہیں ضروتمندوں کی پناہ گاہیں ہیں

دہریہ حضرات کا یہ بھی کہناہے کہ عبادتگاہوں کو بند کر کے انکو عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں کے لئے کھول دینا چاہئے۔ یہ خیال جہاں ایک انسان کے اظہار رائے کے منافی ہے وہی مذہبی تعلیمات اورروایات کے تئیں عدم علم کا بھی ثبوت ہے۔ عبادتگاہیں آفات اور مصائب میں دکھی اورضروتمندوں کے لئے پناگاہوں کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہیں۔اس کی دنیا میں بیشمار مثالیں ملتی ہیں۔حضرت نبی کریمؐ کی مسجد جو کہ مسجد نبوی کہلاتی ہے نہ صرف نماز کے لئے استعمال ہوتی تھی بلکہ وہ ایک مدرسہ اور مکتب کا بھی کام دیتی تھی۔ جہاں لوگ علم و ادب حاصل کرتے تھے۔ اس مسجد میں فاقہ کش لوگ جمع ہوتے تھے اور انکی بھوک مٹائی جاتی تھی۔ اس مسجد میں قوم کی بہتری اوربھلائی کے منصوبے طے پاتے تھے۔ لہذا دہر یہ حضرات کا عبادتگاہیں بند کرنے کا خیال غلط اور اندرونی بغض کو ظاہر کرتاہے یہ وبا دہریہ حضرات اور انکو جو سب کچھ انسانی تدبیر کو ہی خیال کرتے ہیں دعوت فکر دینے والی ہونی چاہئے کہ کیا وجہ ہے کہ باوجود طاقت اور تدبیر کے وہ اپنے پیاروں کو بچا نہیں پا رہے ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ دوا کے ساتھ دعا بہتر نتائج پیدا کریگا اور اپنے خالق و مالک کی طرف رجوع اور توبہ میں ہی انسانیت کی بقا ہے۔

نیا زاحمد نائک

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)