امام وقت کی آواز – جولائی ۲۰۲۰

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’پاکستان میں سیاستدان بھی اور علماء بھی وقتاً فوقتاً کسی نہ کسی بہانے سے احمدیوں کے خلاف اپنا غبار نکالتے رہتے ہیں…اور سب سے بڑا ہتھیار جو مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کے لئے استعمال ہوسکتا ہے وہ ختم نبوت کا ہتھیار ہے۔ …یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ احمدیوں کو مسلمان کہا جائے اور پھر جب یہ کہتے ہیں کہ ہم اس کی خاطر اپنی جانیں بھی قربان کر دیں گے اس پر دوسری پارٹی جو چاہے حکومت بھی کر رہی ہو اس کے نمائندے فوراً اسمبلی میں کھڑے ہو کر بیان دیں گے کہ سوا ل ہی پیدا نہیں ہوتا کہ احمدیوں کو کوئی حق ملے بلکہ جو ایک پاکستانی شہری کی حیثیت سے جو تھوڑا بہت حق ہے چاہے وہ تیسرے درجہ کے شہری کی حیثیت سے ہی ہے، جو تھوڑے حقوق ملے ہوئے ہیں وہ یہ نعرہ لگائیں گے کہ وہ بھی لے لو۔ ہر ایک کے اپنے سیاسی ایجنڈے ہیں۔ ہر ایک کے اپنے ذاتی مفادات ہیں۔ … چنانچہ گزشتہ دنوں پاکستان کی نیشنل اسمبلی میں ایک آئینی ترمیم کے الفاظ میں ردّ و بدل جو سیاسی پارٹی یا حکومتی پارٹی اپنے مفادات کے لئے کر رہی تھی اس کے سلسلہ میں یہی کچھ ہمارے دیکھنے میں آیا۔ پاکستان میں پچھلے دنوں میں بڑا شور مچا رہا اور میڈیا کے ذریعہ سے یہ سب کچھ دنیا کے سامنے آ چکا ہے۔ اس لئے اس بارے میں تو زیادہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہم نے کسی غیر ملکی طاقت سے نہ ہی کبھی یہ کہا ہے کہ ہمیں پاکستانی اسمبلی کے آئین میں ترمیم کروا کر قانون اور آئین کی نظر میں مسلمان بنوایا جائے۔ …نہ ہی ہمیں کسی اسمبلی یا حکومت سے مسلمان کہلانے کے لئے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے، کسی سند کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں کیونکہ ہم مسلمان ہیں۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول ﷺنے مسلمان کہا ہے۔‘‘                         (خطبہ جمعہ فرمودہ 13 اکتوبر 2017)

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)