عید قربان (اداریہ – اگست ۲۰۲۰)

قربانی قرب سے مشتق ہے اور قربانی کے ذریعہ بندہ اللّٰہ کا قرب حاصل کرتا ہے، قربانی کے اس عمل سے ہمیں یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ زندگی کے ہرلمحہ میں اللّٰہ کے قرب کی فکر کرنی چاہئے اور قرب ِ الٰہی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنا چاہئے، جیسے حضرت ابراہیمؑ نے اللّٰہ کی محبت اور اس کی رضاو خوشنودی کے لئے اپنا گھر بار، ملک و وطن، عزیز و اقارب، بیوی بچےسب کچھ قربان کردئےحتی کہ اپنے بیٹےجو بڑھاپے کا سہارا، ضعیفی کا آسراتھا کے گردن پر چھری چلانے سے بھی گریزنہ کیا، اور پوری دنیا کےانسانوں کے لئے ایک مثال قائم کردی اور یہ بتادیا کہ قربانی محض جانور کے گلے پر چھری چلانے اور اس کا خون بہانے کا نام نہیں بلکہ قربانی اپنی خواہشات اور جذبات کو قربان کرنے اور اپنی محبوب ترین چیزوں کو اللّٰہ کے راستہ میں لٹانے اور اپنی قوت و توانائی کو اس کے دین کی خدمت میں صرف کرنے اور نفس کو اطاعت کی طرف پھیرنےکا نام ہےجیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتا ہےکہ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ جب تک اس طرح کی کیفیت پیدا نہ ہو قربانی کا اثر ہماری زندگی میں ظاہر نہیں ہوگا اور جسے قربِ الٰہی کی یہ دولت نصیب ہوجاتی ہے تو کم از کم اس کا حال یہ ہوتا ہےکہ اسے ہمیشہ اللّٰہ کا دھیان رہتا ہے،اور اس کے فرائض و احکام کی بجا آوری میں اس سے کسی قسم کی غفلت اور کوتاہی سرزد نہیں ہوتی ہے۔

جب حضرت ابراہیمؑ  کو بذریعہ خواب اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم ہوا تو انہوں نے اللّٰہ سے حکم کی حکمت نہیں پوچھی، بلکہ حکم کی تعمیل میں اپنے بیٹے کے گلے پر چھری رکھ دی، اطاعت کا یہ انداز اللّٰہ کو اس قدر پسند آیا کہ قیامت تک کے لئے اس کو جاری فرمادیا۔ قربانی کے وقت ہم ہزاروں جانور محض خالق ِ کائنات کے حکم پر ذبح کرتےہیںتو اس سے عبودیت کا اظہار ہوتا ہے، یہی عبودیت زندگی کے ہر شعبے میں ہونی ضروری ہے۔

حج یا عید الاضحی کے موقع پر قربانی دین کےشعائرمیں سےایک اہم شعاراور عظیم عبادت ہے۔اسلام نےجانور کو خالص اللّٰہ کے لئے قربان کرنے کا حکم دیا اور غیر اللّٰہ کیلئے ذبح کئے جانے والے جانور کے گوشت کو حرام قراردیا ۔

قربانی اللّٰہ تعالی کی وہ عظیم عبادت ہے جس کے ہر پہلومیں انسان کے لئے کچھ نہ کچھ نصیحتیں موجود ہیں، جس پر عمل کرکے انسان اپنے اندرونی نظام کی اصلاح کرسکتا ہے، جب تک بندہ کے اندر قربانی کے جانور کی طرح اپنے آپ کو مٹانے کا جذبہ پیدا نہ ہو اس وقت تک وہ بارگاہِ ایزدی میں مقبول نہیں ہوگا اور قربانی کے اس پورے عمل سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ زندگی کے ہر موڑ پراپنا سب کچھ یہاں تک کہ اپنے جذبات اور خواہشات کو بھی اللّٰہ کے لئے قربان کرنا اور خود کو کمتر اور حقیر سمجھ کر زندگی گذارنا یہی حقیقی مومن کی نشانی ہے اور ایسے ہی بندہ کواللّٰہ کی رضا و خوشنودی میسر ہوتی ہے۔

انبیائے کرام نے اطاعت و ایثار اور قربانی کی لازوال مثالیں پیش کی ہیں ، یہ قربانیاں ہمارے لئے نصیحت آموز ہیں کہ بڑے مقاصد کی تکمیل اور اس دنیا کو دکھوں سے پاک کرنے کے لئے اپنی پیاری اشیاء حتیٰ  کہ اولاد کو بھی قربان کرنا پڑے تو اس سے گریز نہ کیا جائے، دنیا کو پیچیدہ مسائل کے چنگل سے نکال کر امن و محبت اور اخوت کا گہوارہ بنانے کے لئے اپنی سب سے پیاری چیزوں کی قربانی ضروری ہے، عید الاضحی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اطاعت الٰہی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تسلیم و رضا کی یاد گار ہے ۔

حضرت مسیح موعود  ؑ فرماتے ہیں:

 ‘‘ذبیحہ اور قربانیاں جو اسلام میں مروّج ہیں وہ سب اسی مقصود کے لئے جو بذل نفس ہے بطور یاددہانی ہیں اور اس مقام کے حاصل کرنے کے لئے ایک ترغیب ہے اور اُس حقیقت کے لئے جو سلوک تام کے بعد حاصل ہوتی ہے ایک ارہاص ہے ۔’’[خطبہ الہامیہ(اردو ترجمہ )45]                        اطہر احمد شمیم

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)