حضرت مسیح موعوؑ کی تصنیفات اور قرآنی حقائق و معارف

تبریز احمدسلیجہ مربی سلسلہ قادیان

’’مجھکو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کی اشاعت کیلئے مامور کیا ہے‘‘

(حضرت مسیح موعودؑ )

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا(الفرقان :31)

یعنی’’اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب !یقیناً میری قوم نے اس قرآن کو متروک کر چھوڑا ہے۔‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ اس آیت کریمہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یہ ایک پیشگوئی ہے جو آئندہ زمانہ میں پوری ہونے والی تھی جب آنحضرت ﷺ کی قوم عملاًقرآن کو چھوڑ دے گی اور رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ سے اس کی شکایت کریں گے۔‘‘(ترجمۃ القرآن، صفحہ 617)

حدیث شریف میں بھی مسلمانوں کے اس تنزل کی خبر دی گئی ہے۔ جیسا کہ آنحضور ؐنے فرمایا:

یُوْشِکُ اَنْ یَّاتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْمُہٗ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْمُہٗ ۔

(مشکوٰۃ کتاب العلم الفصل الثالث صفحہ ۳۸کنز العمال جلد ۶ صفحہ ۴۳)

 آنحضرت ؐنے فرمایا کہ عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا اور الفاظ کے سوا قرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔

نیزحدیثوں میں یہ پیشگوئی بھی مذکور تھی کہ ایک زمانہ آنے والا ہے جس میں قرآن صرف رسم الخط کے طور پر رہ جائے گا۔ اور یہ پیشگوئی پوری آب وتاب کے ساتھ اس زمانہ میں منطبق ہو چکی ہےاور یہ محاورہ بھی اسی زمانہ کے لئے ہے کہ: مسلمانان در گور و مسلمانی در کتاب۔

اس زمانہ میں مسلمانوں کی قرآن سے دوری کا یہ عالم تھا کہ کوئی کہتا تھا کہ قرآن کے دس پارے غائب ہیں۔ کوئی کہتا تھا کہ فلاں حصہ غائب ہے، بعض کے عقائد تھے کہ حدیث کو قرآن پر ترجیح ہے۔ بعض اس کی آیات کو منسوخ سمجھ رہے تھے۔ بعض اسے پرانے زمانہ کے لئے جبکہ دنیا غیر مہذب تھی واجب العمل قرار دیتے تھے اور موجودہ زمانہ کے لئے اُن کاخیال تھا یہ تعلیم کا م نہیں آسکتی ہے۔بعض عیسائیوں کے ہم خیال تھے کہ آخری نبی حضرت عیسیٰؑ ہون گے، اور وہ کس دین اور کس مذہب پر چلیں گے اس بات کو سمجھنا بھی ان کے لئے بہت مشکل تھا۔

غرض وہ قرآن جس نےجن و انس کو اپنی نظیرپیش کرنے کا چیلنج دیا اور1400 سال تک کسی کو دم نہ لینے دیا۔ اس قرآن کے ہوتے ہوئے اُس زمانہ کے علماء اسلام پاردیوں کے ہاتھوں شکست کھا رہے تھے۔ بلکہ تاریخ اسلام میں پہلی مرتبہ اس قسم کا ارتداد عظیم کا نمونہ دیکھ رہے تھے۔ عین اس وقت جبکہ مسلمانوں میں چاروں طرف سے مایوسی چھا رہی تھی،گمراہی اپنا دامن ساری دنیا میں پھیلا رہی تھی۔ ان حالات میں جبکہ مدافعت اسلام کا میدان بالکل خالی پڑاتھا۔ خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق : انا نحن نزلنا الذکروانا لہ لحافظون (الحجرات آیت 11)کے تحت بانئی جماعت احمد یہ سیدنا حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعودؑ کے ذریعہ یہ اعلان فرمایا :

وقت تھا وقتِ مسیحا نہ کسی اور کا وقت

میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا

اسی طرح ایک اور روایت میںاس ناز ک وقت کااندازہ اس روایت سے ہوتا ہے کہ :زیاد بن لبید ؓکہتے ہیں کہ نبی اکرم ؐنے کسی بات کا ذکر کیا اور فرمایا:’’یہ اس وقت ہو گا جب علم اُٹھ جائے گا‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! علم کیسے اُٹھ جائے گا جب کہ ہم قرآن پڑھتے اور اپنی اولاد کو پڑھاتے ہیں اور ہماری اولاد اپنی اولاد کو پڑھائے گی اسی طرح قیامت تک سلسلہ چلتا رہے گا؟ آپ ؐنے فرمایا: ’’زیاد! تمہاری ماں تم پر روئے، میں تو تمہیں مدینہ کا سب سے سمجھدار آدمی سمجھتا تھا، کیا یہ یہود و نصاریٰ تورات اور انجیل نہیں پڑھتے؟ لیکن ان میں سے کسی بات پر بھی یہ لوگ عمل نہیں کرتے۔‘‘

(سنن ابن ماجہ، باب : ذهاب القرآن والعلم)

آنحضور ؐنے ایسے نازک دور میں دین کے احیا اور قرآن کریم کی کھوئی ہوئی عظمت اور بھولی ہوئی ہدایت کو دوبارہ دنیا میں قائم کرنے کےلئے اُمت محمدیہ میں سے ایک ایسے شخص کے آنے کی بشارت دی جو فارسی الاصل ہوگا۔چنانچہ جب سورۃ جمعہ نازل ہوئی تو صحابہ نے آنحضور ؐسےآخرین کے بارے میں دریافت کیا کہ یارسول اللہ وہ کون لوگ ہوں گے ؟آپؐ نے حضرت سلمان فارسی ؓکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا :لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ عِنْدَ الثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رِجَالٌ اَوْ رَجُلٌ مِنْ ھٰؤُلَآءِ

(بخاری کتاب التفسیر سورۃ جمعہ و مسلم)

 اگر ایمان ثریا کے پاس بھی پہنچ گیا یعنی زمین سے اُٹھ گیا تو ان لوگوں (یعنی اہل فارس) میں سے کچھ لوگ یا ایک شخص اس کو واپس لے آئیں گے۔

چنا نچہ حضرت مسیح موعودؑ کے جو کام اللہ تعالیٰ نے سپرد کئے ہیں ان میں سب سے بڑا کام دین اسلام کی اصل تعلیمات کو دنیا میں دوبار ہ سے قائم کرنا۔ اور اسلام و قرآن کی لاثانی تعلیمات کی حقانیت کودیگر ادیان باطلہ پرثابت کرنا تھا۔ بحیثیت خادم قرآن، اپنی آمد کا مقصد بیان کرتےہوئے حضرت مسیح موعود ؑفرماتےہیں :

’’مجھ کو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کی اشاعت کے مامور کیا ہے تا میں جو ٹھیک ٹھیک منشا قرآن کریم کا ہے لوگوں پر ظاہر کروں ۔‘‘

(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد4صفحہ 30)

نیز فرمایا:’’خدا تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا کہ میں ان خزائن مدفونہ کو دنیا پر ظاہر کروں اور ناپاک ا عتراضات کا کیچڑ جو ان درخشاں جوہرات پر تھوپا گیا ہے۔ اس سے ان کو پاک صاف کروں۔ خدا تعالیٰ کی غیرت اس وقت بڑی جوش میں ہے کہ قرآن شریف کی عزت کو ہر ایک خبیث دشمن کے داغ اعتراض سے منزہ ومقدس کرے۔‘‘(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 38جدید ایڈیشن)

حضرت مسیح موعود ؑقرآن شریف کی تیسری تجلی ہیں، آپ فرماتے ہیں :

’’قرآن شریف کیلئے تین تجلیات ہیں۔ وہ سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ  ؐکے ذریعہ سے نازل ہوا اور صحابہ ؓکے ذریعہ سے اس نے زمین پر اشاعت پائی اور مسیح موعود کے ذریعہ سے بہت سے پوشیدہ اسرار اس کے کھلے وَلِکُلِّ اَمْرٍوَقْتٌ مَّعْلُوْمٌ اور جیسا کہ آسمان سے نازل ہوا تھا ویسا ہی آسمان تک اس کا نور پہنچا اور آنحضرت ؐکے وقت میں اس کے تمام احکام کی تکمیل ہوئی اور صحابہ ؓکے وقت میں اس کے ہر ایک پہلو کی اشاعت کی تکمیل ہوئی اور مسیح موعود کے وقت میں اس کے روحانی فضائل اور اسرار کے ظہور کی تکمیل ہوئی۔‘‘

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 66حاشیہ)

حضرت مسیح موعود ؑقرآن کریم کے خزانوں کو تقسیم کرنے کےلئے مبعوث ہوئے ہیں، فرمایا:جس قدر معارف و حقائق بطون قرآن کریم میںچھپےہوئے ہیں جو ہریک قسم کے ادیان فلسفیہ وغیر فلسفیہ کو مقہور و مغلوب کرتے ہیں اُن کے ظہور کا زمانہ یہی تھا۔ کیونکہ وہ بجُز تحریک ضرورت پیش آمدہ کے ظاہر نہیں ہو سکتے تھے… یہ زمانہ درحقیقت ایک ایسا زمانہ ہے جو بالطبع تقاضاکررہا ہے جو قرآن شریف اپنے اُن تمام بطون کو ظاہر کرے جو اُس کے اندرمخفی چلے آتے ہیں…اب وہ ابن مریم جسکا روحانی باپ زمین پر بجُز معلّم حقیقی کے کوئی نہیں جو اس وجہ سے آدم سے بھی مشابہت رکھتا ہے بہت سا خزانہ قرآن کریم کالوگوں میں تقسیم کرے گا یہاں تک کہ لوگ قبُول کرتے کرتے تھک جائیں گے اور لَا یَقْبَلُہٗ اَحَدٌ کا مصداق بن جائیں گے اور ہر یک طبیعت اپنے ظرف کے مطابق پُر ہوجائے گی۔‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3صفحہ 464تا467)

حضرت مسیح موعود ؑقرآن مجید کی حفاظت کیلئےمبعوث ہوئے ہیں، فرمایا:

’’وہ پاک وعدہ جس کو یہ پیارے الفاظ ادا کررہے ہیں کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:10) وہ انہیں دنوں کے لئے وعدہ ہے جو بتلارہا ہے کہ جب اسلام پر سخت بلا کا زمانہ آئے گا اور سخت دشمن اس کے مقابل کھڑا ہوگا اور سخت طوفان پیدا  ہوگا تب خدائے تعالیٰ آپ اس کا معالجہ کرے گا اور آپ اس طوفان سے بچنے کے لئے کوئی کشتی عنایت کرے گا وہ کشتی اس عاجز کی دعوت ہے‘‘(آئینہ کمالات اسلام، ر خ، جلد 5صفحہ 264 حاشیہ)

جو معنے قرآن شریف کے مسیح موعود کرے گا وہی صحیح ہوں گے

فرمایا:’’میری حیثیت ایک معمولی مولوی کی حیثیت نہیںہے۔بلکہ میری حیثیت سنن انبیاء کی سی حیثیت ہے۔مجھے ایک سماوی آدمی مانو۔پھر یہ سارے جھگڑے اور تمام نزاعیں جو مسلمانوں میں پڑی ہوئی ہیں،ایک دم میں طے ہو سکتی ہیں۔جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر حکم بن کر آیا ہے،جو معنی قرآن شریف کے وہ کرے گا،وہی صحیح ہوں گےاور جس حدیث کو وہ صحیح قرار دے گا، وہی حدیث صحیح ہو گی۔‘‘ (ملفوظات جلداوّل صفحہ 399)

محترم صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب مرحوم و مغفور اپنی کتاب’’حضرت مسیح  موعودؑ کی تعلیم فہم قرآن‘‘ میں فرماتےہیں :’’قرآن کریم کی تعبیر و تفسیر کو ایک مضبوط قلعہ کی دو ناقابل تسخیر فصیلوں میں محفوظ کر دیا گیا ہے توکسی فردِ اُمت کو یہ اختیار نہیں کہ وہ قرآن کریم کے ان دو پشتی بانوں اور مامنوں کے فرمودات کی راہ نمائی سے صرف نظر کر کے اور ان کے بتائے ہوئے اسالیب فہم قرآن کے کامل اتباع کیے بغیر اپنی عقل و فہم کے مطابق قرآن کریم کے معانی اور تفسیر بیان کرے۔ اس قلعہ بندی کے بعد جو تفسیر و تعبیر قرآن اس کی دیواروںسے باہر بیٹھ کر لکھی جائے گی اس کی صداقت پر مہرِ الٰہ نہیں ہوگی اور وہ لوح محفوظ کےمندرجات میںشمار نہیں کی جائے گی۔

حضرت اقدس کی بعثت کے بعد قرآن کریم کے حصن حصین کے دروازے بند کر دئیے گئے ہیں۔ اس حریم قدس میں کسی غیر کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ یہی وہ راز ہے جس کو آپ نے منصب حکم و عدل کی تعریف میں بیان کیا ہے۔ آپ قرآن کریم کے عرفان کی آخری تجلی ہیں۔ آپ امام آخر زمان ہیں اور قرآن کریم کے خمخانے کی شراب معرفت کا آخری دورِ جام ہیں اس لیےقرآن کریم کافہم و ادراک صرف اور صرف اس جام کو نوش کرنے سے حاصل ہو سکتا ہے۔ آ پ کا یہ شعر کس قدر بامعنی اور دلفریب ہے

احمدِ آخر زماں نامِ  من است

آخریں جامے ہمیں جامِ من است

“احمد آخر زمان میرا نام ہے اور معرفت الٰہی میں میرا جام آخری جام ہے‘‘

(حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیم فہم قرآن، صفحہ 22)

حضرت مسیح موعود ؑکو معارف قرآنی عطا کیے گئےہیں 

فرمایا:’’خدا تعالیٰ نے بشارت دی کہ ضلالت کے وقت اللہ تعالیٰ اس دین کو ضائع نہ کرے گا بلکہ آنے والے زمانے میں خدا تعالیٰ حقائق قرآنیہ کو کھول دے گا۔ آثار میں ہےکہ آنے والے مسیح کی ایک یہ فضیلت ہو گی کہ وہ قرآنی فہم اور معارف کا صاحب ہو گا اور صرف قرآن سے استنباط کرکے لوگوں کو ان کی غلطیوں سے متنبہ کرے گا جو حقائق قرآن کی ناواقفیت سے لوگوں میں پیدا ہو گئی ہوں گی۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ25)

اسی طرح فرمایا:’’یہ بھی یاد رہے کہ جب کہ مجھ کو تمام دنیا کی اصلاح کے لئے ایک خدمت سپرد کی گئی ہے، اِس وجہ سے کہ ہمارا آقا اور مخدوم تمام دنیا کے لئے آیا تھا تو اُس عظیم الشان خدمت کے لحاظ سے مجھے وہ قوتیں اور طاقتیں بھی دی گئی ہیں جو اس بوجھ کے اُٹھانے کے لئے ضروری تھیں اور وہ معارف اور نشان بھی دئیے گئے ہیں جن کا دیا جانا اتمام حجت کے لئے مناسب وقت تھا۔‘‘

(حقیقت الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 155)

ایک اور مقام پر فرمایا:’’مجھے خدا نے قرآن کا علم دیا ہے اور زبان عرب کے محاورات کے سمجھنے کےوہ فہم عطا کیا ہے کہ میں بلا فخر کہتا ہوں کہ اس ملک میں کسی دوسرے کو یہ فہم عطا نہیں ہوا۔‘‘

(کشف الغطا، روحانی خزائن جلد 14صفحہ 208)

نیز فرمایا:’’قرآن کریم بلاشبہ جامع حقائق و معارف اور ہر زمانہ کی بدعات کا مقابلہ کرنے والا ہے۔ اس عاجز کا سینہ اس کی چشم دید برکتوں اور حکمتوں سے پُر ہے…بلاشبہ ہماری بھلائی اور ترقی علمی اور ہماری دائمی فتوحات کیلئے قرآن ہمیں دیا گیا ہے اور اس کے رموز اور اسرار غیر متناہی ہیں جو بعد تزکیہ نفس اشراق اور روشن ضمیری کے ذریعہ سے کھلتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے جس قوم کے ساتھ کبھی ہمیں ٹکرا دیا اس قوم پر قرآن کے ذریعہ سے ہی ہم نے فتح پائی وہ جیسا ایک اُمّی دیہاتی کی تسلی کرتا ہے ویسا ہی ایک فلسفی معقولی کو اطمینان بخشتا ہے یہ نہیں کہ وہ صرف ایک گروہ کیلئے اُترا ہے، دوسرا گروہ اس سے محروم رہے۔ بلاشبہ اس میں ہر یک شخص اور ہریک زمانہ اور ہریک استعداد کیلئے علاج موجود ہے۔جو لوگ معکوس الخلقت اور ناقص الفطرت نہیں وہ قرآن کی ان عظمتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کے انوار سے مستفید ہوتے ہیں۔‘‘

 (مباحثہ لدھیانہ، صفحہ 108)

 اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ خدمت قرآن پر مامور کئےگئے۔ حضرت مسیح موعود ؑکو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص الہام کے ذریعہ قرآن مجید کی خدمت پر مامور فرمایا چنانچہ الہام ہوا :

اَلرَّحْمٰنُ عَلّمَ الْقُرْآنَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَاؤُہُمْ وَلِتَسْتَبِيْنَ سَبِيْلُ الْمُجْرِمِيْنَ قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّ لُ الْمُوْمِنِیْنَ ۔یعنی وہ خدا ہے جس نے تجھے قرآن سکھلایا یعنی اس کے حقیقی معنوں پر تجھے اطلاع دی تا کہ تو ان لوگوں کو ڈرائے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے، اور تاکہ مجرموں کی راہ کھل جائے اور تیرے انکار کی وجہ سے ان پر حجت پوری ہو جائے۔ ان لوگوں کو کہہ دے کہ میں خدا ئےتعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آیا ہوں اور میں وہ ہوں جو سب سے پہلے ایمان لایا۔‘‘

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 66)

 حضرت مسیح موعود ؑکی بعثت کے وقت اسلام چاروں طرف سے دشمنان اسلام کے ناپاک اعتراضات کا تختہ مشق بنا ہوا تھا۔ خود مسلمانوں کے اعتقادات و اعمال ایسے تھے جن سے وہ دوسروں کو اسلام، بانی اسلام اور قرآن مجید کی پاک تعلیم پر اعتراضات کا موقع دے رہے تھے۔ اسلام، بانی اسلامؐ اور قرآ ن مجید کی پاک تعلیمات پر ہونے والے اعتراضات سے آپ اکثر دل برداشتہ رہتے اور اس فکر میں رہتے کہ ان کا جواب دیا جائے اسی غرض کےلیے آپ نے اوائل عمر سے ہی قرآن مجید کا مطالعہ شروع کیا۔ آپ کے فرزند حضرت مرزاسلطان احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ :

’’آپ کے پاس ایک قرآن مجید تھا اس کو پڑھتے اور اس پر نشان کرتے رہتے تھے۔وہ کہتے ہیں کہ میں بلا مبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ شاید دس ہزار مرتبہ اس کو پڑھا ہو۔‘‘(تاریخ احمدیت، جلد 1،صفحہ 64)

قرآن مجید پر اس کثرت سے غور و خوض نے آپ کے دل کو روشن کر دیا اور آپ مذاہب کے میدان کارزار میں قرآنی حقائق و معارف سے لیس ہو کر اسلام کے دفاع میں کھڑے ہوگئے۔ جیسا کہ آپ فرماتے ہیں :

’’اس وقت جو ضرورت ہے وہ یقینا ًسمجھ لو سیف کی نہیں بلکہ قلم کی ہے۔ ہمارے مخالفین نے اسلام پر جو شبہات وارد کیے ہیں اور مختلف سائنسوں اور مکائد کی روسے اللہ تعالیٰ کے سچے مذہب پر حملہ کرنا چاہا ہے، اس نے مجھے متوجہ کیا ہے کہ میں قلمی اسلحہ پہن کر اس سائنس اور علمی ترقی کے میدان کار زار میں اُتروں اور اسلام کی روحانی شجاعت اور باطنی قوت کا کرشمہ بھی دکھلائوں ۔‘‘ (ملوظات، جلد اوّل، صفحہ 38)

اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ قرآنی حقائق و معارف کے ذریعہ ایک طرف جہاں آپ نے دیگر مذاہب کے عقائدحیات مسیح، تثلیث، ابنیت مسیح، کفارہ، تناسخ، قدامت روح و مادہ، وغیرہ کا ردّ فرمایا وہیں مسلمانوں کے عقائد فاسدہ کی اصلاح کرتے ہوئے وفات مسیح، اجرائے نبوت، عصمت انبیاء، نزول مسیح وغیرہ امور پر قرآنی شواہد سے روشنی ڈالی۔ نیز مسلمانوں میں پھیلی ہوئی بد رسوم کا بھی قرآن مجید کی حقیقی تعلیم کی روشنی میں بحیثیت حکم و عدل خاتمہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو قرآن مجید کے ظل کے طور پر فصیح و بلیغ عربی زبان سکھائی جس کے نتیجہ میں آپ نے بیس کے قریب عربی تصانیف فرمائیں جن میں سے ایک کتاب’’اعجاز المسیح‘‘بھی ہے جو سورۃ فاتحہ کی تفسیر پر مشتمل ہے۔ حضور ؑنے اس تفسیر کے متعلق باعلام الہٰی لکھا کہ اگر مخالف علما ءاور حکماء اور فقہاء اور ان کے باپ اور بیٹے متفق ہو اس تفسیر کی مثل لانا چاہیں تو وہ ہر گز نہیں لا سکیں گے۔ (ر،خ جلد 18صفحہ 56)

اس عظیم الشان پیشگوئی کے مطابق عرب و عجم کے کسی بھی ادیب اور فاضل کو اس کی مثل لکھنے کی جرأت نہ ہوئی۔ آپ نے اپنی اسّی سے زائد کتابوں میں قرآن مجید کے ایسے حقائق و معارف اور عجائبات و دقائق بیان فر ما ئے جن کا دیگر تفاسیر میں نام و نشان نہیں ملتا۔ آپ فرماتےہیں :

’’مَیں اس سے پہلے لکھ چکا ہوں کہ قرآن شریف کے عجائبات اکثر بذریعہ الہام میرے پر کھلتے ر ہتے ہیں اور اکثر ایسے ہو تے ہیں کہ تفسیروں میں اُن کا نام و نشان نہیں پایا جاتا۔ مثلاًیہ جو اس عاجز پر کھلا ہے کہ ابتدائے خلقتِ آدم سے جس قدر آنحضرت ؐکے زمانہ بعثت تک مدّت گزری تھی وہ تمام مدت سورۃ والعصر کے اعداد حروف میں بحساب قمری مندرج ہے یعنی چار ہزار سات سو چالیس اب بتلائوکہ یہ دقائق قرآنیہ جس میں قر آن کریم کا اعجاز نمایا ں ہے کس تفسیر میں لکھے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن،جلد3،صفحہ 258)

ذیل میں حضرت مسیح موعودؑ کی بعض تحریرات کے اُن اقتباسات کو شامل کیا جائے جس سے ہم سمجھ سکیں گے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو کس طرح قرآنی حقائق و معارف سکھائے تھے۔اور یہ تمام اقتباسات آپؑ کی کتب سے ہی لئے گئے ہیں۔

قرآن مجید کی اوّلیت و فوقیت

حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں: ’’سب سے اوّل قرآن ہے جس میں خدا کی توحید اور جلال اور عظمت کا ذکر ہے… میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے۔ حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے۔ سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو۔ اور اُس سے بہت ہی پیار کرو۔ ایسا پیار کہ تم نے کسی نے نہ کیا ہو۔ کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایاکہ اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں۔ یہی بات سچ ہے۔ افسوس اُن لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اُس پر مقدم رکھتے ہیں۔ تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے۔ کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی۔ تمہارے ایمان کا مصدّق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلا واسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے۔ خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی۔میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے، اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی، اگر بجائے توریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے ان کے قیامت سے منکر نہ ہوتے۔ پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی یہ نہایت پیاری نعمت ہے۔ یہ بڑی دولت ہے۔ اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مضغہ کی طرح تھی۔ قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدایتیں ہیچ ہیں …قرآن تم کو نبیوں کی طر ح کر سکتا ہے اگر تم خود اس سے نہ بھاگو… اور قرآن کی دعوت کو رد مت کروکہ وہ تمہیں وہ نعمتیں دینا چاہتا ہے جو پہلو ں کو دی تھیں۔‘‘

(کشی نوح ، روحانی خزائن جلد 19صفحہ26)

قرآن کریم حدیث کی صداقت کےلیے محک ہے

 فرمایا:’’اگر درحقیقت کوئی حدیث قرآن کریم سے معارض ومخالف ہے تو حدیث قابل تاویل ہے نہ کہ قرآن۔ کیونکہ قرآن کریم کے الفاظ جواہرات مرصع کی طرح اپنے اپنے محل پر چسپاں ہیں اورنیز قرآن کریم کا ہر یک لفظ اور ہر یک نقطہ تصرّف اوردخل انسان سے محفوظ ہے برخلاف حدیثوں کے کہ وہ محفوظ الالفاظ بکلی نہیں اور ان کے الفاظ کی یادداشت اور محل پر رکھنے میں وہ اہتمام نہیں ہواجو قرآن کریم میں ہوا۔‘‘(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 612)

اگر قرآن پر کوئی قاضی ہے تو وہ خود قرآن ہے

فرمایا: ’’ہم حدیث کو خادم قرآن اور خادم سنت قرار دیتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ آقا کی شوکت خادموں کے ہونے سے بڑھتی ہے۔ قرآن خدا کا قول ہے اور سنت رسول اللہ کا فعل۔ اور حدیث سنت کیلئے ایک تائیدی گواہ ہے۔ نعوذ باللہ یہ کہنا غلط ہے کہ حدیث قرآن پر قاضی ہے۔ اگر قرآن پر کوئی قاضی ہے تو وہ خود قرآن ہے۔ حدیث جو ایک ظنی مرتبہ پر ہے قرآن کی ہرگز قاضی نہیں ہوسکتی۔ صرف ثبوت مؤید کے رنگ میں ہے۔ ‘‘

 (روحانی خزائن جلد 19، کشتی نوح صفحہ 62)

قرآن شریف کے خلاف معانی کرنا تحریف ہے

’’انصاف کی آنکھ سے دیکھنا چاہیے کہ جس طرح حضرت مسیح کے حق میں اللہ جلّ شَانُہٗ نے قر آن کریم میں اِنِّی مُتَوَفّیِکَ فر مایا ہے اسی طرح ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا ہے وَاِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِيْ نَعِدُہُمْ اَوْ نَتَـوَفَّيَنَّكَ یعنی دونوں جگہ مسیح کے حق میں اور ہمارے سید و مو لیٰ ؐکے حق میں توفِّی کا لفظ مو جود ہے پھر کس قدر ناانصافی کی بات ہے کہ ہمارے سید ومولیٰ کی نسبت جو توفِّی کا لفظ آیا ہے تو اس جگہ تو ہم وفات کے ہی معنے کریں اور اُسی لفظ کو حضرت عیسٰی کی نسبت اپنے اصلی اور شائع متعارف معنوں سے پھیر کر اور اُن متفق علیہ معنے سے جو اوّل سے آخر تک قر آن شریف سے ظاہر ہو رہے ہیں انحراف کر کے اپنے دل سے کچھ اَور کے اَور معنے تراش لیں۔اگر یہ الحاد اور تحریف نہیں تو پھر الحاد اورتحریف کس کو کہتے ہیں‘‘(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3صفحہ 274)

 قرآن مجید نے تین طرح کی اصلاح کی

فرمایا:’’قرآن شریف کی تعلیم اور رسول اللہ ؐکی ہدایت تین قسم پر منقسم تھی۔ پہلی یہ کہ وحشیوں کو انسان بنایا جائے اور انسانی آداب اور حواس اُن کو عطا کئے جائیں اور دوسری یہ کہ انسانیت سے ترقی دے کر اخلاق کاملہ کے درجے تک اُن کو پہنچایا جائے اور تیسری یہ کہ اخلاق کے مقام سے اُن کو اُٹھا کر محبت الٰہی کے مرتبہ تک پہنچایا جائے اور یہ کہ قرب اور رضا اور معیت اور فنا اور محویت کے مقام اُن کو عطاہوں۔‘‘(نجم الہدیٰ، روحانی خزائن جلد 14صفحہ 34)

قرآن شریف میں غیر محدود معارف ہیں

فرماتے ہیں : ’’جا ننا چاہئے کہ کھلا کھلا اعجازقرآن شریف کا جو ہرایک قوم اور ہریک اہل زبان پر روشن ہو سکتا ہے جس کو پیش کر کے ہم ہریک ملک کے آدمی کو خواہ ہندی ہو یا پارسی یا یوروپین یا امریکن یا کسی اَورملک کا ہو ملزم و ساکت و لاجواب کرسکتے ہیں،وہ غیر محدود معارف و حقائق و علوم حکمیہ قرآنیہ ہیں جو ہر زمانہ میں اس زمانہ کی حاجت کے موافق کھلتے جاتے ہیںاورہر یک زمانہ کے خیالات کو مقابلہ کرنے کے لئے ُمسلّح سپاہیوں کی طرح کھڑے ہیں … کھلا کھلا اعجاز اس کا تو یہی ہے کہ وہ غیر محدود معارف و دقائق اپنے اندر رکھتا ہے۔ جو شخص قرآن شریف کے اس اعجاز کو نہیں مانتا و ہ علمِ قرآن سے سخت بے نصیب ہے۔ …کو ئی شخص برہمو یا بدھ مذہب والا یا آریہ یا کسی اور رنگ کا فلسفی کو ئی ایسی الٰہی صداقت نکال نہیں سکتا جوقرآن شریف میں پہلے سے موجود نہ ہو۔قرآن شریف کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہو سکتے اور جس طرح صحیفۂ فطرت کے عجائب و غرائب خواص کسی پہلے زمانہ تک ختم نہیں ہو چکے بلکہ جدید درجدید پیدا ہوتے جاتے ہیں یہی حال ان صحفِ مطہرہ کا ہے تا خدائے تعالیٰ کے قول اور فعل میں مطابقت ثابت ہو۔‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3صفحہ 255)

قرآن مجید میں درج قصے دراصل پیشگوئیاں ہیں

گزشتہ مفسرین نے قرآن مجید میں درج نبیوں اور قوموں کے واقعات کو محض ایک قصے کے طو ر پر لیا ہے لیکن حضرت مسیح موعود ؑنے فرمایا کہ دراصل یہ قصے پیشگوئیوں کا رنگ رکھتے ہیں۔ آپ فرماتےہیں :

’’جس قدر قرآن شریف میں قصے ہیں وہ بھی درحقیقت قصے نہیں بلکہ وہ پیشگوئیاں ہیں جو قصوں کے رنگ میں لکھی گئی ہیں ہاں وہ توریت میں تو ضرورصرف قصے پائے جاتےہیں مگر قرآن شریف نے ہر ایک قصہ کو رسول کریم کےلئے اور اسلام کے لئے ایک پیشگوئی قرار دے دیا ہے اور یہ قصوں کی پیشگوئیاں بھی کمال صفائی سے پوری ہوئی ہیں۔ ‘‘

(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 271)

دیگر کتابوں اور نبیوں پرقرآن کریم کے احسانات

فرمایا:’’قرآن شریف اپنی ساری تعلیموں کو علوم کی صورت اور فلسفہ کے رنگ میں پیش کرتا ہے…پس یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن شریف نے پہلی کتابوں اور نبیوں پر احسان کیا ہے جو اِن کی تعلیموں کو جو قصّہ کے رنگ میں تھیں، علمی رنگ دیدیا ہے۔میں سچ سچ کہتا ہوں کہ کوئی شخص ان قصّوں اور کہانیوں سے نجات نہیں پاسکتا جب تک وہ قرآن شریف کو نہ پڑھے، کیونکہ قرآن شریف ہی کی یہ شان ہے کہ وہ اِنَّہٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ وَّمَا ہُوَبِالْہَزْلِ (الطارق : 14،15) وہ میزان، مہیمن، نُور اور شفاء اور رحمت ہے۔ جو لوگ قرآن شریف کو پڑھتے اور اُسے قصّہ سمجھتے ہیں انھوں نے قرآن شریف نہیں پڑھا، بلکہ اس کی بے حُرمتی کی ہے… خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم پر کھول دیا ہے کہ قرآن شریف ایک زندہ اور روشن کتاب ہے… میں بار باراس امر کی طرف ان لوگوں کو جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو کشفِ حقائق کے قائم کیا ہے… اور میں چاہتا ہوں کہ عملی سچائی کے ذریعہ اسلام کی خُوبی دنیا پر ظاہر ہو۔ جیسا کہ خدا نے مجھے اس کام کے مامُور کیا ہے۔ اسلئے قرآن شریف کو کثرت سے پڑھو مگر نرا قصہ سمجھ کر نہیں بلکہ ایک فلسفہ سمجھ کر۔‘‘ (ملفوظات، جلددوم، صفحہ 113)

مقطعات قرآنی کی حقیقت

حضرت مسیح موعود ؑکی بعثت سے قبل مقطعات قرآنی ایک عقدہ لاینحل تھا مگراللہ تعالیٰ نے آپ پر ا س عقدہ کو کھول دیا۔ آپؑ نے خدا تعالیٰ سے علم پاکر ان کا حل دنیا کو بتایا۔ چند مقطعات کا ذکر کیا جاتا ہے۔

الٓمٓ(البقرہ :2) کے متعلق فرماتےہیں :’’غور کرنا چاہئے کہ کس لطافت اور خوبی اور رعایتِ ایجاز سے خدائے تعالیٰ نے وسوسہ مذکورہ کا جواب دیا ہے۔ اوّل قرآن شریف کے نزول کی علت فاعلی بیان کی اور اس کی عظمت اور بزرگی کی طرف اشارہ فرمایااور کہا الٓمٓ میں خدا ہوں جوسب سے زیادہ جانتا ہوں یعنی نازل کنندہ اس کتاب کا میں ہوں جو علیم و حکیم ہوں جس کےعلم کےبرابر کسی کا علم نہیں۔‘‘(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 200)

الٓرٰ(ھود:2) کے متعلق فرماتےہیں :”الف سے مراد اللہ اور ل سے مراد جبرائیل اور ر سے مراد رسل ہیں چونکہ اس میں یہی قصہ ہے کہ کونسی چیزیں انسانوں کو ضروری ہیں اس لئے فرمایا کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ۔ یہ کتاب ایسی ہے کہ اس کی آیات پکی اور استوار ہیں۔‘‘

(ملفوظات، جلد اول، صفحہ 342)

عقیدہ ناسخ منسوخ

حضرت مسیح موعود ؑکی بعثت سے قبل مسلمانوں میں قرآن مجید کے متعلق یہ اعتقاد پایا جاتا تھا کہ اس کی بعض آیات ناسخ ہیں اور بعض منسوخ ہیں۔ منسوخ آیات کی تعداد علما ءکے نزدیک پانچ سو تک تھی۔ اگر چہ کہ علما ءنے یہ کوشش کی کہ کسی طرح تطبیق کر کے اس تعداد کو کم کیا جائے اور وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی ہوئے لیکن حضرت مسیح موعود ؑکی بعثت تک بھی اس عقیدہ کا پوری طرح سے حل نہیں ہو پایا تھا اور پانچ آیات ایسی رہ گئی تھیں جوعلماء کے نزدیک منسوخ تھیں۔ حضرت مسیح موعود ؑنے آکر اس مسئلے کو پوری طرح سے حل فرما دیا۔ چنانچہ آپ فرماتےہیں :

’’قرآن کریم آپ فرماتا ہے۔ مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْہَآ اَوْ مِثْلِہَا یعنی کوئی آیت ہم منسوخ یا منسی نہیں کرتے جس کے عوض دوسری آیت ویسی ہی یا اس سے بہتر نہیں لاتے۔ پس اس آیت میں قرآن کریم نے صاف فرمادیا ہے کہ نسخ آیت کا آیت سے ہی ہوتا ہے اسی وجہ سے وعدہ دیا ہے کہ نسخ کے بعد ضرور آیت منسوخہ کی جگہ آیت نازل ہوتی ہے ہاں علماء نے مسامحت کی راہ سے بعض احادیث کو بعض آیات کی ناسخ ٹھہرایا ہے جیسا کہ حنفی فقہ کے رو سے مشہور حدیث سے آیت منسوخ ہوسکتی ہے مگر امام شافعی اس بات کا قائل ہے کہ متواتر حدیث سے بھی قرآن کا نسخ جائز نہیں اور بعض محدثین خبر واحد سے بھی نسخ آیت کے قائل ہیں لیکن قائلین نسخ کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ حقیقی اور واقعی طور پر حدیث سے آیت منسوخ ہوجاتی ہے بلکہ وہ لکھتے ہیں کہ واقعی امر تو یہی ہے کہ قرآن پر نہ زیادت جائز ہے اور نہ نسخ کسی حدیث سے لیکن ہماری نظر قاصر میں جو استخراج مسائل قرآن سے عاجز ہے یہ سب باتیں صورت پذیر معلوم ہوتی ہیں اور حق یہی ہے کہ حقیقی نسخ اور حقیقی زیادت قرآن پر جائز نہیں کیونکہ اس سے اس کی تکذیب لازم آتی ہے‘‘

(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 4صفحہ 92)

نیز فرماتےہیں :

’’ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اور ایک شعشہ یانقطہ اسکی شرائع اور حدود اور احکام اوراوامر سے زیادہ نہیں ہوسکتا اور نہ کم ہوسکتا ہے اور اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہو سکتا جو احکام فرقانی کی ترمیم یا تنسیخ یاکسی ایک حکم کے تبدیل یا تغییرکر سکتا ہو۔ اگر کوئی ایسا خیال کرے تووہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اور ملحد اور کافر ہے۔‘‘(ازالہ اوہام، حصہ اول، صفحہ170)

 قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت اور ترتیب معجزہ ہے

’’قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جس میں ہر ایک قسم کے معارف اور اسرار موجود ہیں لیکن ان کے حاصل کرنے کے لئے میں پھر کہتا ہوں کہ اسی قوت قدسیہ کی ضرورت ہے؛ چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ لَّا يَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ(الواقعہ:۸۰)ایسا ہی فصاحت، بلاغت میں (اس کا مقابلہ نا ممکن ہے) مثلاً سورۃ فاتحہ کی موجودہ ترتیب چھوڑ کر کوئی اور ترتیب استعمال کرو،تو وہ مطالب عالیہ اور مقاصد عظمیٰ جو اس تر تیب میں موجود ہیں ممکن نہیں کہ کسی دوسری ترتیب میں بیان ہو سکیں۔ کوئی سی صورت لے لو۔خواہ قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَد ہی کیوں نہ ہو۔جس قدر نرمی اور ملاطفت کی رعایت کو ملحوظ رکھ کر اس میں معارف اور حقائق ہیں،وہ کوئی دوسرا بیان نہ کر سکے گا۔یہ بھی فقط اعجاز قرآن ہی ہے۔مجھے حیرت ہوتی ہے جب بعض نادان مقامات حریری یا سبع معلّقہ کو بے نظیر اور بے مثل کہتے ہیں اوراس طرح پرقرآن کریم کی بے مانندیت پرحملہ کرنا چاہتے ہیں۔وہ اتنا نہیں سمجھتے کہ اول تو حریری کے مصنف نے کہیں اس کے بے نظیر ہونے کا دعوی نہیں کیا اوردوم یہ کہ مصنف حریری خود قرآن کریم کی اعجازی فصاحت کاقائل تھا۔علاوہ ازیں معترضین راستی اور صداقت کو ذہن میں نہیںرکھتے بلکہ ا ن کو چھوڑ کر محض الفاظ کی طرف جاتے ہیں مندرجہ بالا کتابیں حق اورحکمت سے خالی ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 53-52)

قرآن مجید کاہر حکم حکمت اور مصلحت پر مبنی ہے

’’یہ خوبی قرآنی تعلیم میں ہے کہ اس کا ہرحکم معلّل با غراض ومصالح ہے اور اس لئے جابجا قرآن کریم میں تاکید ہے کہ عقل، فہم، تدبر، فقاہت اور ایمان سے کام لیا جائے اور قرآن مجید اور دوسری کتابوں میں یہی مابہ الامتیاز ہے۔ اور کسی کتاب نے اپنی تعلیم کو عقل اور تدبر کی دقیق اور آزاد نکتہ چینی کے آگے ڈالنے کی جرأت ہی نہیں کی۔ بلکہ انجیلِ خاموش کے چالاک اور عیار حامیوں نے اس خیال سے کہ انجیل کی تعلیم عقلی زور کے مقابل بے جان محض ہے، نہایت ہوشیاری سے اپنے عقائد میں اس امر کو داخل کر لیا کہ تثلیث اور کفار ہ ایسےراز ہیں کہ انسانی عقل ان کی کنہ تک نہیں پہنچ سکتی۔ بر خلاف اس کے فرقان حمید کی یہ تعلیم ہے اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللہَ (آل عمران:۱۹۱،۱۹۲) یعنے آسمانوں کی بناوٹ اور زمین کی بناوٹ اور رات اور دن کا آگے پیچھے آنا دانشمندوں کو اُس اللہ کا صاف پتادیتے ہیں، جس کی طرف مذہب اسلام دعوت دیتا ہے اس آیت میں کس قدر صاف حکم ہے کہ دانشمند اپنی دانشوں اور مغزوں سے بھی کام لیں۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 39)

اسلامی جہاد کی حقیقت

جہاد کے متعلق صحیح اسلامی نکتہ نظر بیان کرتے ہوئےآپؑ فرماتےہیں:

’’اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اسلام میں کافروں کے ساتھ جہاد کرنے کاحکم ہے تو پھر کیونکر اسلام صلح کاری کا مذہب ٹھہر سکتا ہے پس واضح ہوکہ قرآن شریف اور آنحضرت ؐپر یہ تہمت ہے اور یہ بات سراسر جھوٹ ہے کہ دین اسلام میں جبرا ً دین پھیلانے کے لئے حکم دیا گیا تھا… اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ؐ کو دفاعی جنگ کے لئے اجازت فرمائی یعنی ا س طرح کی جنگ میں جس کامقصد صرف حفاظتِ خود اختیاری اورکفار کا حملہ دفع کرنا تھا جیسا کہ قرآن شریف میں تصریح سے اس بات کا ذکر کیا گیا ہے اوروہ آیت یہ ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ یُدَافِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوْرٍ اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِاَنّھَمُ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰہَ عَلیٰ نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرٌ۔ (الحج: 40-39) (ترجمہ) خدا کا ارادہ ہے کہ کفار کی بدی اور ظلم کو مومنوں سے دفع کرے یعنی مومنوں کو دفاعی جنگ کی اجازت دے تحقیقاً خدا خیانت پیشہ ناشکر لوگوں کو دوست نہیں رکھتا۔ خدا اُن مومنوں کو لڑنے کی اجازت دیتا ہے جن پر کافر قتل کرنے کے لئے چڑھ چڑھ کے آتے ہیں اور خدا حکم دیتا ہے کہ مومن بھی کافروں کا مقابلہ کریں کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور خدا اُن کی مدد پر قدرت رکھتا ہے یعنی اگرچہ تھوڑے ہیں مگر خدا اُن کی مدد پر قادر ہے۔ یہ قرآن شریف میں وہ پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کو کفار کے مقابلہ کی اجازت دی گئی۔ آپ خود سوچ لو کہ اس آیت سے کیا نکلتا ہے۔ کیا لڑنے کےلئے خود سبقت کرنا یا مظلوم ہونے کی حالت میں اپنے بچائو کے لئے بمجبوری مقابلہ کرنا۔ ہمارے مخالف بھی اس بات کو جانتے ہیں کہ آج ہمارے ہاتھ میں وہی قرآن ہے جو آنحضرت ؐنے شائع کیا تھا۔ پس اُس کے اس بیان کے مقابل پر جو کچھ برخلاف اس کے بیان کیا جائے وہ سب جھوٹ اور افترا ہے۔ مسلمانوں کی قطعی اور یقینی تاریخ جس کتاب سے نکلتی ہے وہ قرآن شریف ہے۔اب ظاہر ہے کہ قرآن شریف یہی بیان کرتا ہے کہ مسلمانوں کو لڑائی کا اُس وقت حکم دیا گیا تھا جب وہ ناحق قتل کئے جاتے تھے اورخدا تعالیٰ کی نظر میں مظلوم ٹھہرچکے تھے اور ایسی حالت میں دو صورتیں تھیں یا تو خدا کافروں کی تلوار سے اُس کو فنا کردیتا اور یا مقابلہ کی اجازت دیتا اور وہ بھی اس شرط سے کہ آپ اُن کی مدد کرتا کیونکہ اُن میں جنگ کی طاقت ہی نہیں تھی۔‘‘

(پیغام صلح، روحانی خزائن، جلد23،صفحہ 390)

 وحی و الہام کا سلسلہ جاری ہے

 فرماتے ہیں :

’’یہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے وحی و الہام کے دروازہ کو بند نہیں کیا۔ جو لوگ اس امت کو وحی و الہام کے انعامات سے بے بہرہ ٹھہراتے ہیںوہ سخت غلطی پر ہیں اور قرآن شریف کے اصل مقصد کو انہوں نے سمجھا ہی نہیں۔ ان کے نزدیک یہ امت وحشیوں کی طرح ہے اور آنحضرت ﷺ کی تاثیرات اور برکات کا معاذ اﷲ خاتمہ ہو چکا اور وہ خدا جو ہمیشہ سے متکلم خدا رہا ہے اب اس زمانہ میں آکر خاموش ہوگیا۔ وہ نہیں جانتے کہ اگر مکالمہ مخاطبہ نہیں تو ھُدًی لِّلْمُتَّقِيْنَ کا مطلب ہی کیا ہوا؟ بغیر مکالمہ مخاطبہ کے تو اس کی ہستی پر کوئی دلیل قائم نہیں ہوسکتی اور پھر قرآن شریف نے یہ کیوں کہا وَالَّذِيْنَ جَاھَدُوْا فِيْنَا لَـنَہْدِيَنَّہُمْ سُـبُلَنَا (العنکبوت : ۷۰) اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْہِمُ الْمَلٰیِٕكَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا (حٰمٓ السجدۃ : ۳۱) یعنی جن لوگوں نے اپنے قول اور فعل سے بتادیا کہ ہمارا رب اﷲ ہے اور پھر انہوں نے استقامت دکھائی ان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے۔ اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ فرشتوں کا نزول ہوا اور مخاطبہ نہ ہو۔ نہیں بلکہ وہ انہیں بشارتیں دیتے ہیں۔ یہی تو اسلام کی خوبی اور کمال ہے جو دوسرے مذاہب کو حاصل نہیں ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 613)

جنت اور دوزخ کی حقیقت

فرمایا:’’قرآن شریف کی رو سے دوزخ اور بہشت دونوں اصل میں انسان کی زندگی کے اظلال اور آثار ہیں۔ کوئی ایسی نئی جسمانی چیز نہیں ہے کہ جو دوسری جگہ سے آوے۔ یہ سچ ہے کہ وہ دونوں جسمانی طور سے متمثل ہوں گے مگر وہ اصل روحانی حالتوں کے اظلال و آثار ہوں گے۔ ہم لوگ ایسی بہشت کے قائل نہیں کہ صرف جسمانی طور پر ایک زمین پر درخت لگائے گئے ہوں اور نہ ایسی دوزخ کے ہم قائل ہیں جس میں درحقیقت گندھک کے پتھر ہیں۔ بلکہ اسلامی عقیدہ کے موافق بہشت دوزخ انہی اعمال کے انعکاسات ہیں جو دنیا میں انسان کرتا ہے۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 413)

عصمت انبیاء(ذنب کی حقیقت)

آیت کریمہ اِنَّافَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا لِّيَغْفِرَ لَكَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَاَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَيْكَ وَيَہْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَـقِيْم (الفتح:2) کی تشریح کرتے ہوئے فرماتےہیں :

’’ہم نے ایک فتح عظیم جو ہماری طرف سے ایک عظیم الشان نشان ہے تجھ کو عطا کی ہے تا ہم وہ تمام گناہ جو تیری طرف منسوب کئے جاتےہیں ان پر اس فتح نمایاں کی نورانی چادر ڈال کر نکتہ چینوں کا خطا کار ہونا ثابت کریں۔‘‘

(اربعین، روحانی خزائن جلد 17صفحہ451)

اسی طرح فرمایا: ’’تمام نبیوں اور راستبازوں کے کلام میں عجزو انکسار کے الفاظ اور اپنی کمزوری کا اظہار پایا جاتا ہے اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے…اس قسم کے الفاظ تمام نبیوں کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں۔ چونکہ ان کی معرفت بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے اور وہ اﷲ تعالیٰ کی عظمت اور جبروت کے مقام کو شناخت کرتے ہیں۔ اسلئے نہایت انکسار اور عاجزی کا اظہار کرتے ہیں۔ نادان جن کو اس مقام کی خبر نہیں ہے وہ اس پر اعتراض کرتے ہیں حالانکہ یہ ان کی کمال معرفت کا نشان ہوتا ہے۔آنحضرت ﷺ کے لیے اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ وَرَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللہِ اَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْہُ اِنَّہٗ كَانَ تَوَّابًا (النصر : ۲-۴) آیا ہے۔ اس میں صاف فرمایا ہے تو استغفارکر۔ اس سے کیا مراد ہے؟ اس سے یہی مراد ہے کہ تبلیغ کا جو عظیم الشان کام تیرے سپرد تھا۔ دقائقِ تبلیغ کا پورا پورا علم تو اﷲ تعالیٰ ہی کو ہے اس لئے اگر اس میں کوئی کمی رہی ہو تو اﷲ تعالیٰ اُسے معاف کر دے۔ یہ استغفار تو نبیوں اور راستبازوں کی جان بخش اور عزیز چیز ہے۔ اب اس پر نادان اور کو تاہ اندیش عیسائی اعتراض کرتے ہیں۔ جہاں استغفار کا لفظ اُنہوں نے سُن لیا۔ جھٹ اعتراض کر دیا حالانکہ اپنے گھر میں دیکھیں تو مسیح کہتا ہے کہ مجھے نیک مت کہہ۔ اس کی تاویل عیسائی یہ کرتے ہیں کہ مسیح کا منشاء یہ تھا کہ مجھے خدا کہے۔ یہ کیسے تعجب کی بات ہے۔ کیا مسیح کو ان کی والدہ مریم یا اُن کے بھائی خدا کہتے تھے جو وہ یہی آرزو اس شخص سے رکھتے تھے کہ وہ بھی خدا کہے۔ اُنہوں نے یہ لفظ تو اپنے عزیزوں اور شاگردوں سے بھی نہیں سنا تھا۔ وہ بھی اُستاد اُستاد ہی کہا کرتے تھے۔ پھر یہ آرزو اس غریب سے کیونکر ان کو ہوئی۔ کیا وہ خوش ہوتے تھے کہ کوئی انہیں خدا کہے۔ یہ بالکل غلط ہے۔ اُن کو نہ کسی نے استادکہا اور نہ انہوں نے کہلوایا…اصل بات یہی ہے کہ خد اتعالیٰ کے برگزیدہ بندے اپنی عبودیت کا اعتراف کرتے رہتے ہیں اور دعائوں میں لگے رہتے ہیں۔ احمق ان باتوں کو عیب سمجھتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات، جلد چہارم، صفحہ315)

روح کی حقیقت

فرمایا: وَيَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًاا لجزو ۱۵ سورہ بنی اسرائیل… آیت کے سیدھے سیدھے معنے جو سیاق سباق کلام سے سمجھے جاتے ہیں اور صاف صاف عبارت سے نکلتے ہیں یہی ہیں کہ اے محمدؐ کفار تجھ سے روح کی کیفیت پوچھتے ہیں کہ روح کیا چیز ہے اور کس چیز سے پیدا ہوئی ہے سو ان کو کہہ دے کہ روح امر ربی ہے یعنی عالم امر میں سے ہے اور تم اے کافرو کیا جانو کہ روح کیا چیز ہے کیونکہ علم روح حاصل کرنے کے لئے ایماندار اور عارف باللہ ہونا ضروری ہے مگر ان باتوں میں سے تم میں کوئی بھی بات نہیں… غور کرنا چاہئے کہ ان آیات شریفہ متذکرہ بالا کا کیسا مطلب صاف صاف تھا کہ کفار کی ایک جماعت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے روح کے بارے میں سوال کیا کہ روح کیا چیز ہے تب ایسی جماعت کو جیسا کہ صورت موجودہ تھی بصیغہ جمع مخاطب کرکے جواب دیا گیا کہ روح عالم امر میں سے ہے یعنی کلمۃ اللہ یا ظل کلمہ ہے جو بحکمت و قدرت الٰہی روح کی شکل پر وجود پذیر ہوگیا ہے اور اس کو خدائی سے کچھ حصہ نہیں بلکہ وہ درحقیقت حادث اور بندہ خدا ہے اور یہ قدرت ربانی کا ایک بھید دقیق ہے۔ جس کو تم اے کافرو سمجھ نہیں سکتے۔مگر کچھ تھوڑا سا جس کی وجہ سے تم مکلف بایمان ہو۔ تمہاری عقلیں بھی دریافت کرسکتی ہیں… یہ ایک بڑی بھاری صداقت کا بیان ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ ربوبیتِ الٰہی دو طور سے ناپیدا چیزوں کو پیدا کرتی ہے اور دونوںطور کے پیدا کرنے میں پیدا شدہ چیزوں کے الگ الگ نام رکھے جاتے ہیں۔ جب خدائے تعالیٰ کسی چیز کو اس طور سے پیدا کرے کہ پہلے اس چیز کا کچھ بھی وجود نہ ہو تو ایسے پیدا کرنے کا نام اصطلاح قرآنی میں امر ہے اور اگر ایسے طور سے کسی چیز کو پیدا کرے کہ پہلے وہ چیز کسی اور صورت میں اپنا وجود رکھتی ہو تو اس طرز پیدائش کا نام خلق ہے خلاصہ کلام یہ کہ بسیط چیز کا عدم محض سے پیدا کرنا عالم امر میں سے ہے اور مرکب چیز کو کسی شکل یا ہیئت خاص سے متشکل کرنا عالم خلق سے ہے جیسے اللہ تعالیٰ دوسرے مقام میں قرآن شریف میں فرماتا ہے اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ یعنے بسائط کا عدم محض سے پیدا کرنا اور مرکبات کو ظہور خاص میں لانا دونوں خدا کا فعل ہیں اور بسیط اور مرکب دونوں خدائے تعالیٰ کی پیدائش ہے۔‘‘(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2صفحہ 172)

ایک نکتہ معرفت ’’قرآن شریف میں خدا تعالیٰ کے نام کے ساتھ کوئی صفت مفعول کے صیغہ میں نہیں ہے۔ قدوس تو ہے مگر معصوم نہیں ہے کیونکہ معصوم کا لفظ ظاہر کرتاہے کہ اس کو بچانے والا کوئی اور ہے؛ حالانکہ اﷲ تعالیٰ تو اپنی ذات ہی میں بے عیب پاک خدا ہے اور وحدہٗ لاشریک اکیلا خدا ہے۔ ا سکو بچانے والا کون ہوسکتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلدچہارم صفحہ466)

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)