جامعہ احمدیہ میں حصول تعلیم کی غرض و غایت و اہمیت

نیاز احمد نائک استاد جامعہ احمدیہ قادیان

جامعہ احمدیہ میں حصول تعلیم کی غرض و غایت اور اہمیت وافادیت کو مندجہ ذیل آٹھ بنیادی نکات میں اجمالاً بیان کیا گیاہے۔انہی سات نکات کو مضمون ھذا میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ سپردقلم کیا گیاہے۔اللہ تعالیٰ ان کلمات کو ہر لحاظ سے بابرکت اور پُر اثر بنائے۔ آمین۔

(1)جامعہ احمدیہ میں داخلہ لینے سے زندگی کلیۃً خدا اور اس کے دین متین اسلام کے لئے وقف ہوجاتی ہے۔ اور خدا کے لئے وقف ہونا زندگی کا مقصد عظیم ہے۔

(2)جامعہ احمدیہ میں داخلہ لینے سے عبادت خداوندی کے نادرمواقع ملتے ہیں ۔او ر مقام عبودیت کا حصول ہی زندگی کا مقصد وحید ہے۔

(3)جامعہ احمدیہ میں داخلہ لینے سے ہم اس حزب سعید میں شمولیت اختیارکرلیتے ہیں جس کا مقصد اعلاء کلمۃاللہ اورتکمیل اشاعت تبلیغ کامہتمم بالشان مشن ہے۔

(4)جامعہ احمدیہ میں داخلہ لینے سے ہمیں اس یونیورسٹی کا شاگرد بننے کا اعزاز حاصل ہوتاہے جس کی بنیاد امام الزماں نے رکھی۔

(5)جامعہ احمدیہ میں داخلہ لینے سے ہمیں ربانی علماء بننے کا موقع میسر آتاہے۔

(6)جامعہ احمدیہ میں داخلہ لینے سے خلیفہ وقت کی تحریک پر لبیک کہنے کی توفیق ملتی ہے۔ خلیفہ وقت کی تحریک وقتی تقاضوں کے پیش نظر الٰہی منشاء کے مطابق ہوتی ہے۔

(7)جامعہ احمدیہ میںداخلہ لینے سے حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف خاص توجہ پیدا ہوتی ہے۔ جامعہ احمدیہ کی تعلیم حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے ارد گرد ہی گھومتی ہے۔

(8) جامعہ احمدیہ میں داخلہ لینے سے ہم اس گروہ میں شامل ہو جاتے ہیں جن کا کام لوگوں کو نیکی کی طرف بلانا اور برائی سے دور رکھناہے۔

معزز قارئین !اگرچہ عمومی طور پرساری امت محمدیہ کا نصب العین اور ہدف نیکی کی طرف بلانا اور برائیوں سے روکنامتعین کیا گیا ہے تاہم دعوت الیٰ اللہ کے لئے ایک مخصوص گروہ کا ہونا ضروری ہے۔وطن سے محبت اور ہمدردی کا دم اگر چہ تمام ہموطن بھرتے ہیں تاہم ملک پر حملہ ہونے کی صورت میں فوجیوں کی ضرورت پڑتی ہے جو کہ تجربہ کار اور پیشہ ورانہ ہو تے ہیں ۔ اسی طرح مذہب میں مدافعت کا کام ایک تجربہ کا ر گروہ سنبھالتاہے جس کو ہم اپنی اصطلاح میں مربیان یا مبلغین کہتے ہیں۔ اس حزب اللہ کا مقصد اور ہدف خداتعالیٰ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بیان فرمایاہے۔یعنی طلباء جامعہ کا مقصدتبلیغ اسلا م کیلئے دلائل اور براہین اور تزکیہ نفوس کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر میدان تبلیغ کے لئے تیار ہو نا ہے۔جامعہ احمدیہ کی تاسیس تکمیل اشاعت تبلیغ کے مہتمم باالشان مشن کے لئے ہوئی ہے۔ اس مشن کے تحت اسلام کا عالمگیر غلبہ مقد رہے۔ اور اسلام کا سورج پھر ایک دفعہ اپنی تمام شان وشوکت کے ساتھ طلوع ہوگا۔جامعہ احمدیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی بنیاد مسیح الزماں نے رکھی ہے۔اور اس شجرہ طیبہ کی شاخیں آج دنیاکے مختلف ممالک میں پائی جاتی ہیں ۔ہزاروں طیور روحانی اس پر بسیر اکرتے ہیں ۔یہ شجرہ مبارکہ اپنےتازہ اور لذیذ ثمرات سے لوگوں کی روحانی پیاس مٹانے کا موجب ہے۔

جامعہ احمدیہ کی غرض و غایت بانئ جامعہ کے الفاظ میں :

حضرت مسیح موعو دؑ فرماتے ہیں :’’ہماری غرض مدرسہ کے اجراء سے محض یہ ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کیا جائے۔ مروّجہ تعلیم کو اس لئے ساتھ رکھاہے کہ یہ علوم خادم دین ہو ں ہماری یہ غرض نہیں کہ ایف اے یا بی اے پاس کر کے دنیا کی تلاش میں مارے مارے پھریں ہمارے پیش نظر تو یہ امر ہے کہ ایسے لوگ خدمت دین کے لئے زندگی بسر کریں اور اسی لئے مدرسہ کو ضروری سمجھتاہوں کہ شاید دینی خدمت کے لئے کام آسکے۔‘‘

(ملفوظات جلد 8 ص 280-279)

’’میں خود جو اس راہ کا پورا تجربہ کار ہوں اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور فیض سے میں نے اس راحت اور لذت سے حظ اٹھایا ہے یہی آرزو رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرنے کے لئے اگر مر کے پھر زندہ ہوں اور پھر مروں اور زندہ ہوں تو ہر بار میرا شوق ایک لذت کے ساتھ بڑھتا ہی جاوے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۳۷۰)

’’میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنی جماعت کو وصیت کروں اور یہ بات پہنچادوں۔ آئندہ ہر ایک کو اختیار ہے کہ وہ اسے سنے یا نہ سنے کہ اگر کوئی نجات چاہتا ہے اور حیات طیبہ اور ابدی زندگی کا طلبگار ہے تو وہ اللہ کے لئے اپنی زندگی وقف کرے اور ہر ایک اس کوشش اور فکر میں لگ جاوے کہ وہ اس درجہ اور مرتبہ کو حاصل کرے کہ کہہ سکے کہ میری زندگی، میری موت، میری قربانیاں، میری نمازیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور حضرت ابراہیمؑ کی طرح اس کی روح بول اٹھے (اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ) جب تک انسان خدا میں کھویا نہیں جاتا، خدا میں ہوکر نہیں مرتا وہ نئی زندگی نہیں پاسکتا۔ پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو تم دیکھتے ہو کہ خدا کے لئے زندگی کا وقف، مَیں اپنی زندگی کی اصل اور غرض سمجھتا ہوں۔ پھر تم اپنے اندر دیکھو کہ تم میں سے کتنے ہیں جو میرے اس فعل کو اپنے لئے پسند کرتے اور خدا کے لئے زندگی وقف کرنے کو عزیز رکھتے ہیں۔‘‘

(الحکم جلد 4 نمبر 21بتاریخ 31؍اگست 1900صفحہ نمبر 4)

انسانیت کی صحیح خدمت یہی ہے کہ مخلوق کوخالق سے ملایاجائے۔اورباہم ہمدری، پیار ومحبت کے جذبات بڑھائے جائیں۔ اِس اہم دینی اوراخلاقی ضرورت کے پوراکرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے سامان پیدافرمایا اور آج جامعہ احمدیہ کے نام سے تمام دنیا میں معروف و مشہورہوچکاہے۔ جس کی کچھ تفصیل ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

احمدیت کا پیغام ا ب تک محض خداتعالیٰ کے خاص تصرفات اور حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی کتب وغیرہ سے پہنچ رہاتھا۔واعظین کا کوئی باقاعدہ نظام اس غرض کیلئے موجودنہیں تھا۔لیکن چونکہ سلسلہ کا کام بہت بڑھ چکاتھا اورایک تنظیم کے ساتھ اندرون ملک اوربیرونی دنیا کوپیغام حق پہنچانے کی ضرورت بشدت محسوس ہورہی تھی اس لئے حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ستمبر ۱۹۰۷ء میں جماعت کے سامنے ’’وقفِ زندگی‘‘ کی پرزورتحریک فرمائی۔(بدر۳؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ کالم ۲تا۳)

اِس تحریک پر قادیان اور قادیان سے باہر مقیم کچھ نوجونوں نے زندگی وقف کرنے کی درخواست بھجوادی اور حضور نے سب کو مناسب ہدایات سے نوازا۔تمام واقفین کی فہرست تیارکرنے کی ذمہ داری حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ کے سپرد تھی۔تب انہوں نے ایک رجسٹر تیارکیا جس میں ایسے لوگوں کے نام درج کئے جاتے تھے۔حضورؑ نے نہایت خوشنودی کا اظہارفرمایااور اِس سلسلہ میں قیمتی نصائح فرمائیں۔

وقفِ زندگی کی شرائط:

حضرت اقدسؑ نےوقفِ زندگی‘‘ کی تحریک کااعلان کرنے کے بعد میرحامد شاہ صاحب سے اس کی شرائط لکھوائیں اورکچھ اصلاح کے ساتھ ان کو پسند فرمایا۔ان شرائط میںایک شرط یہ تھی کہ ’’مَیں کوئی معاوضہ نہ لوں گا۔چاہے مجھے درختوں کے پتے کھاکر گزارہ کرناپڑے مَیں گزارہ کروں گا اورتبلیغ کروں گا۔‘‘

(بیان حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ الفضل ۲۴؍دسمبر ۱۹۴۴ء صفحہ ۵ کالم ۲)

آج جامعہ احمدیہ کے ذریعہ ہی واقفین کی ضرورت کو پوراکیاجارہاہے۔ اورجو طلبہ جامعہ احمدیہ میں داخل ہوتے ہیں اُن کے ذریعہ اسلام احمدیت کی تبلیغ وتربیت کے اہم امورکوسرانجام دیاجارہاہے۔

دنیاکاسب سے اعلیٰ تعلیمی ادارہ جامعہ احمدیہ:

اگر ہم تاریخ انسانیت میںآغاز سے اب تک تعلیمی اداروں پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں توعصرحاضر کےتعلیمی ادارے عالیشان عمارتوں والے نظر آئیں گی۔لیکن حقیقی رنگ میں فائدہ پہنچانے والے ادارے تنگ وتاریک کوٹھریوں میں ہی نظر آئیں گی۔ ’’دارِ ارقم‘‘ اور ’’مسجدِ نبوی‘‘ ہی نظر آئیں گی۔ جنھیں ایک عاشقِ زار نے ’’دبستانِ محمد ؐ کا بھی نام دیا ہے‘‘ دوسرے ادارے بھی بے شک انسانی فلاح و بہبود کیلئے خادم کے طورپرضروری ہیں مگر ’’انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء‘ ‘(سورہ فاطر آیت 29) ترجمہ: (یقیناً اللہ کے بندوں میں سے اُس سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں) یہ حقیقی خشیت اور معرفت حضرت مسیح موعودؑ کے قائم کردہ جامعہ احمدیہ میں ہی حقیقی معنوں میں حاصل ہو سکتی ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ’’مدرسہ کی حالت دیکھ کر دل پارہ پارہ اورزخمی ہوگیا علماء کی جماعت فوت ہورہی ہے۔ مولوی عبد الکریمؓ کی قلم ہمیشہ چلتی رہتی تھی جو عمر رسیدہ ہیں اُن کو فوت شدہ سمجھئے۔ دوسرا جیساکہ خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ تقوٰی ہو اُس کی تخم ریزی نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے ورنہ اچھے آدمی مفقود ہورہے ہیں۔ آریہ زندگی وقف کررہے ہیں۔یہاں ایک طالبِ علم کے منہ سے بھی نہیں نکلتا۔ہزارہا روپیہ قوم کا جو جمع ہوتا ہے وہ اُن لوگوں کیلئے خرچ ہوتا ہے جو دُنیا کا کیڑا بنتے ہیں۔یہ حالت تبدیل ہوکر ایسی حالت ہو کہ علماء پیدا ہوں۔ علمِ دین میں برکت ہے۔ اِس سے تقوٰی حاصل ہوتا ہے۔بغیر اِس کے شوخی بڑھتی ہے۔ نبوئی علم میں علمِ برکات ہیں۔

لوگ جوروپئے بھیجتے ہیں لنگر خانہ کیلئے یا مدرسہ کیلئے اِس میں اگر بے جا خرچ ہوں تو گناہ کا نشانہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے تدبیر کرنے والوں کی قسم کھائی ہے۔ ’’فالمدبّرات امرا‘‘ مَیں تو ایسے آدمیوں کی ضرورت سمجھتا ہوں جو دین کی خدمت کریں زبان دانی ضروری ہے۔انگریزی پڑھنے سے مَیں نہیں روکتا۔میرا مدعا یہ ہے اور مَیں نے پہلے بھی سوچاہے اور جب سوچاہے میرے دل کو صدمہ پہنچاہے کہ ایک طرف تو زندگی کا اعتبار نہیں جیساکہ خداتعالیٰ کی وحی ’’قرب اجلک المقدر‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے دوسرا اس مدرسہ کی بِناسےیہ غرض تھی کہ دینی خدمت کیلئے لوگ تیار ہوجاویں۔یہ خداتعالیٰ کا قانون ہے پہلے گذرجاتے ہیں دوسرے جانشین ہوں۔ اگر دوسرے جانشین نہ ہوں تو قوم کے ہلاک ہونے کی جڑ ہے۔مولوی عبد الکریم ؓ اور دوسرے مولوی فوت ہوگئے اور جو فوت ہوئے ہیں اُن کا قائم مقام کوئی نہیں۔‘‘(ملفوظات جلد ہشتم صفحہ283-284)

افسوس ہے کہ بعض والدین اورطلباء دینی تعلیم کا حاصل کرنابے سود اور زندگی کو تنگی میں ڈالناخیال کرتے ہیں۔ ایسی سوچ رکھنے والوں کیلئے ایک اہم واقعہ ذیل میں درج کیاجاتاہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔

’’مجھے یاد ہے حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کے وقت میں جب میر محمد اسحٰق صاحبؓ کی تعلیم کا زمانہ آیا تو ہمارے ناناجان مرحوم نے حضرت خلیفہ اوّلؓ سے مشورہ کیا کہ اِسے کیا پڑھایاجائے۔آپؓ نے فرمایا اِس کودینی تعلیم دلوائیں ۔ ایک بیٹے کو آپ نے دُنیا پڑھائی ہے اِس کو دینی تعلیم دلوادیں اِس پر ناناجان مرحوم نے اپنی طرف سے یا نانی اماں کی طرف سے کہا کہ پھر تو یہ اپنے بھائی کے ٹکڑوں پر پلے گا۔ جب اُنہوں نے یہ بات کہی تو حضرت خلیفہ اوّلؓ نے فرمایا خداتعالیٰ بعض دفعہ ایک شخص کو دوسرے کی خاطر روٹی دیتا ہے۔ آپ یہ کیوںکہتے ہیں کہ اگر یہ دینی خدمت میں مشغول رہاتو اپنے بھائی کے ٹکروں پر پلے گا۔ آپ یہ کیوں نہیں کہتے کہ یہ دین کی خدمت کرے گا تو اُس کے طفیل اللہ تعالیٰ اِس کے بھائی کی روزی میں بھی برکت پیداکرے گا۔ پھر آپ نے حضرت ابوہریرہؓ کا واقعہ سنایا جب وہ اسلام لائے تواُن کے دل میں شوق پیدا ہواکہ مَیں رسولِ کریم ﷺ کی مجلس میں بیٹھوں اور آپ کی باتیں سُنوں چنانچہ وہ رات دن مسجد میں بیٹھے رہتے تھے۔ تاکہ رسولِ کریم ﷺ جب بھی تشریف لائیں اور کوئی بات کریں تو اُس کے سننے سے محروم نہ رہیں اُن کی روایات کی کثرت کو دیکھ کر بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہؓ بڑے پرانے صحابی تھے۔حالانکہ وہ پرانے صحابی نہیں بلکہ رسولِ کریم ﷺ کی وفات سے صرف تین سال پہلے ایمان لائے تھے۔ مگر روایات سب سے زیادہ اُن کی ہیں۔ اور شائد یہی وجہ ہے کہ لوگ پرانے پرانے صحابیوں کو نہیں جانتے مگر ابوہریرہؓ کو جانتے ہیں کیونکہ حدیثوں میں باربار آتا ہے کہ ابوہریرہؓ نے یہ کہا ابوہریرہؓ نےوہ کہا غرض وہ بہت بعد میں اسلام لائے لیکن اُن کے دل میں دین سیکھنے کا جوش تھا جب وہ ایمان لائے تو رسولِ کریم ﷺ کی مجلس کے متعلق انھوںنے یہ عہد کرلیا کہ چونکہ اور لوگوں نے آپؐ کی بہت سی باتیں سن لیں اور مجھے آخرمیں ایمان لانے کی توفیق ملی ہے اِس لئے اب مَیں رسولِ کریم ﷺ کا ساتھ نہیں چھوڑوں گاچنانچہ آکر بیٹھ گئے اور انھوں نے عہدکیا کہ جس طرح بھی ہوسکا مَیں دین کی خدمت کروںگا دُنیا کا کوئی کام نہیں کروں گا اُن کا ایک بھائی بھی مسلمان ہوچکاتھا چونکہ یہ سب کاروبار چھوڑکر رسولِ کریم ﷺ کے پاس آبیٹھے تھے اِس لئے کچھ مدت تک تو وہ اپنے ایمان کے جوش میں اپنے بھائی کو کھاناپہنچاتارہا عربوں کی زندگی بہت ہی سادہ ہواکرتی تھی۔ وہ کھجوریں کھاکر پانی پی لیتے اور اُس کو غذا کیلئے کافی سمجھتے تھے یا کبھی سوکھا گوشت مل جاتا تو وہی کھاکر پانی پی لیتے غرض بہت ہی سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور اُن کو کھاناپہنچانا کوئی مشکل امر نہ تھا مگر کچھ مدت تک ایمان کے جوش نے انھیں کھانا پہنچانے کے بعد حضرت ابوہریرہؓ کا بھائی تنگ آگیا جب اُس نے تنگی محسوس کی تو ایک دن وہ رسولِ کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے عرض کیا کہ یارسول اللہؐ آپ ابوہریرہؓ سے کہئے کہ وہ کچھ کمایا بھی کرے۔ یہ کہا کہ سارا دن مسجد میں ہی بیٹھا رہتا ہے کوئی کام نہیں کرتا۔ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا تمہیں کیا معلوم کہ خداتعالیٰ اُس کے طفیل تمہیں بھی رزق دیتاہو۔حضرت خلیفہ اوّلؓ نے بھی یہی واقعہ ہمارے نانا جان مرحوم کو سنایا چنانچہ اِس کے بعد ناناجان مرحوم نے دُنیاوی تعلیم کا ارادہ چھوڑکر اُنھیں اِسی کام پر لگادیا‘‘

 (بحوالہ تفسیرِ کبیر جلد دہم صفحہ116-117)

واقفینِ نَوکو جامعہ احمدیہ میں داخلہ لینے کی ہدایت:

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بارہااپنے خطباتِ جمعہ اور خطابات نیز واقفینِ نَو کے ساتھ منعقد ہونے والے کلاسز میں توجہ دلاتے ہیں کہ واقفینِ نَو زیادہ سے زیادہ جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیں۔ تاکہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کو خدمت دین کرنے والے ضرورت کے مطابق میسر آئیں۔چنانچہ جماعت احمدیہ یوکے کے نیشنل وقف نواجتماع2016ء کے موقع پر واقفین نو لڑکوںسے امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خطاب کرتے ہوئے28فروری 2016ء کو فرماتے ہیں۔

 ’’آپ میں سے وہ جو پندرہ سال یاپندرہ سال سے زائد عمر کے ہیں اَب اپنے مستقبل اور اپنے کیریئر کے انتخاب کے بارہ سوچنے لگ جائیں گے۔ یقینا آپ کو وہ شعبے اختیار کرنے چاہئیں جو آپ کی دلچسپی کے ہیں۔ لیکن مَیں آپ میں سے زیادہ سے زیادہ کو تاکید کروں گا کہ جامعہ احمدیہ میں داخلہ کے لئے درخواست دینے پر غور کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں دنیا بھر میں مبلغین کی اشد ضرورت ہے۔ گو کہ جامعہ احمدیہ یوکے سے چار کلاسیں فارغ التحصیل ہو چکی ہیں مگر اس کے باوجود ابھی تک برطانیہ میں ہی مبلغین کی ضرورت کو پورا نہیں کیا جا سکا۔نیزبہت سے ایسے ممالک جہاں انگریزی زبان بولی جاتی ہے وہاں بھی ہمیں مبلغین کی ضرورت ہے اس لئے مَیں آپ کو نصیحت کروں گا کہ آپ جامعہ میں اس روح کے ساتھ داخلہ لینے کو مدّنظر رکھیں کہ یہ آپ کے وقف کے عہد کو پورا کرنے کا ذریعہ بنے گا۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل ۱۹؍اگست ۲۰۱۶صفحہ ۳۳کالم ۱تا۲)

ایک اورموقع پرفرماتے ہیں

’’میں دوبارہ اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ دنیا میں دین کے پھیلانے کے لئے دینی علم کی ضرورت ہے اور یہ علم سب سے زیادہ ایسے ادارہ سے ہی مل سکتا ہے جس کا مقصد ہی دینی علم سکھانا ہو۔ اور یہ ادارہ جماعت احمدیہ میں جامعہ احمدیہ کے نام سے جانا جاتا ہےاس لئے واقفین نو کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو جامعہ احمدیہ میں آنا چاہئے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍جنوری 2013)

 ’’جامعہ احمدیہ میںجانے والوں کی تعداد واقفین نو میں زیادہ ہونی چاہئے۔ ہمارے سامنے تو تمام دنیا کا میدان ہے۔ ایشیا، افریقہ، یورپ، امریکہ، آسٹریلیا، جزائر، ہر جگہ ہم نے پہنچنا ہے۔ ہر جگہ، ہر بر اعظم میں نہیں، ہر ملک میں نہیں، ہر شہر میں نہیں بلکہ ہر قصبہ میں، ہر گاؤں میں، دنیا کے ہر فرد تک اسلام کے خوبصورت پیغام کو پہنچانا ہے۔ اس کے لئے چند ایک مبلغین کام کو سرانجام نہیں دے سکتے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍جنوری 2013)

 ’’ہوش کی عمر میں آکر جب بچے واقفین نو اور جماعتی پروگراموں میں حصہ لیں تو اُن کے دماغوں میں یہ راسخ ہو کہ انہوں نے صرف اور صرف دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا ہے۔ زیادہ سے زیادہ بچوں کے دماغ میں ڈالیں کہ تمہاری زندگی کا مقصد دین کی تعلیم حاصل کرنا ہے۔ یہ جو واقفین نو بچے ہیں ان کے دماغوں میں یہ ڈالنے کی ضرورت ہے کہ دین کی تعلیم کے لئے جو جماعتی دینی ادارے ہیں اُس میں جانا ضروری ہے۔ جامعہ احمدیہ میں جانے والوں کی تعداد واقفین نو میں کافی زیادہ ہونی چاہئے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍جنوری 2013)

’’دین سیکھنے کے لئے مرکز سلسلہ میں آنا اور کامل شرح صدر کے ساتھ دین سیکھنا اور اپنی زندگیاں دین کے لئے وقف کر دینا اور پھر کامل وفا کے ساتھ اس وقف کو نبھانا اور حضرت مسیح موعودؑ کے مشن کی تکمیل میں ہر قربانی کے لئے تیار ہوجانا جہاں یہ بات حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کی دلیل ہے وہاں آج تک ایسے لوگوں کی قربانی کو اب تک جاری رکھنا خلافت احمدیہ کی بھی سچائی کی دلیل ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جون 2014ء) المختصر یہ کہ جامعہ احمدیہ میں تعلیم ایک نفع بخش سود ا ہے۔ جس نے بھی یہ سودا کیا و ہ حسنات دارین سے مالا مالا ہو ا ہے۔سیدنا حضور انور کی خاص راہنمائی اور شفقت کے نتیجہ میں جامعہ احمدیہ قادیان ترقیات کی شاہراہ پر گامزن ہے۔ خوش بخت ہیں وہ جو ترقی کی اس راہ کو اختیار کرتے ہو ئے خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہیں۔

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)