عصرِ حاضر میں حضرت مسیح موعودؑ کی تصانیف کے مطالعہ کی اہمیت و برکات اور خدّام الاحمدیہ کی ذمہ داریاں

 گیانی مبشر احمد خادم مہتمم تربیت مجلس خدّام الاحمدیہ بھارت

وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ(الجمعہ آیت 4)

 ترجمہ: اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی (اسے مبعوث کیا ہے) جو ابھی ان سے نہیں ملے۔ وہ کامل غلبہ والا اور صاحبِ حکمت ہے۔

قارئین ! عصر حاضر میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کو تمام فتنوں، آزمائشوں، ابتلائوں، بےچینیوں اور فسقوفجور سے بچانے کے لئے وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ کےحقیقی مصداق سیدنا حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانیؑ کو مبعوث فرمایا آپؑ کے ذریعہ دنیا میں توحید کا نور پھیلا اور ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے سچّائی اور قرآن مجید کی صداقت دنیا پر روز روشن کی طرح ظاہر ہوئی اور اسلام کا تمام ادیانِ باطلہ پر غلبہ ہوا۔ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مسیح موعود کا زمانہ ہی وہ زمانہ تھا جس میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کے کناروں تک اسلام کی تبلیغ کو پہنچانا تھا۔ چنانچہ قرآنِ کریم میں مسیح موعودؑ کے زمانے کی علامت اور صداقت کے طور پر یہ پیشگوئی بھی ہے کہ۔ وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَت۔ اِس پیشگوئی میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح طور پر بیان کر دیا کہ مسیح موعودؑ کے زمانے میں ایسی ایسی ایجادات ہوںگی کہ کتابوں اور رسالوں کی نشر و اشاعت بالکل عام ہو جائےگی۔

 پس اے مجلس خدّام الاحمدیہ کی بابرکت تنظیم میں شامل احمدی نوجوانوں ! یہ ہماری انتہائی خوش نصیبی ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اِس زمانہ کے امام اور مرسل سیدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی اِس لئے یہ ہمارا اوّلین فرض ہے کہ ۰ہم سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بابرکت تحریرات کا مطالعہ کریں اور اسکے ذریعہ اپنے سینوں اور ذہنوں کو منوّر کریں اور عصرِ حاضر کے اِس پر آشوب ماحول میں اِن بابرکت تصانیف کے ذریعہ اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگیاں سنوارنے والے بنیں اور اسکے ذریعہ ہمارے معاشرہ میں اور اسی طرح تمام دنیا میں امن اور سلامتی پیدا ہو۔ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ  کی تصانیف کو پڑھنا کتنا ضروری ہے اسکی اہمیت آپؑ کے اس ارشاد سے واضح ہو جاتی ہے آپؑ  فرماتے ہیں کہ: ’’ جو شخص ہماری کتابوں کو کم از کم تین دفع نہیں پڑھتا اُس میں ایک قسم کا کبر پایا جاتا ہے۔ ‘‘

 (سیرت المہدی جلد اوّل حصہّ دوم صفحہ ۳۶۵)

اپنی جماعت کے افراد کو مخاطب کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ : ’’ سب دوستوں کے واسطے ضروری ہے کہ ہماری کتب کم از کم ایک دفعہ ضرور پڑھ لیا کریں، کیونکہ علم ایک طاقت ہے اور طاقت سے شجاعت پیدا ہوتی ہے ‘‘۔ (ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۳۶۱)

 حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’ پس خدا تعالیٰ نے اس نشر و اشاعت کے اِس زمانہ میں جدید طریقے مہیا فرمائے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کے صحابہ کے پاس آج کل کے وسائل اور جدید طریقے موجود نہیں تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے تبلیغ اسلام کا حق ادا کر دیا۔ آج کل ہمارے پاس یہ طریقے موجود ہیں اور آنحضرت ﷺ کے غلامِ صادق کے زمانے میں یہ مقدّر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسکی پیشگوئی بھی فرما دی تھی۔ یہ آیت جو ہے یہ پیشگوئی ہے جس کا دوسری جگہ اس طرح ذکر ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَت (التکویر : آیت نمبر ۱۱)

 یعنی جب کتابیں پھیلا دی جائیںگی پس ایک تو یہ زمانہ کتابیں پھیلانے کا ہے جو مسیح موعود کا زمانہ ہے۔

 پس یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سیدنا حضرت مسیح موعودؑ  کی تصانیف ایک زندگی بخش جا م کی مانند ہیں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ اس تعلق سے فرماتے ہیں کہ :

’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ مسیح کے ہاتھ سے زندہ ہونے والے مر گئے مگر جو شخص میرے ہاتھ سے جام پئےگا جو مجھے دیا گیا ہے وہ ہرگز نہیں مرےگا۔ وہ زندگی بخش باتیں جو میں کہتا ہوں اور وہ حکمت جو میرے منہ سے نکلتی ہے اگر کوئی اور بھی اسکی مانند کہہ سکتا ہے تو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں آیا لیکن اگر یہ حکمت اور معرفت جو مردہ دلوں کے لئے آب حیات کا حکم رکھتی ہے دوسری جگہ سے نہیں مِل سکتی تو تمہارے پاس اِس جرم کا کوئی عذر نہیں کہ تم نے اس سر چشمہ سے انکار کیا جو آسمان پر کھولا گیا زمین پر اسکو کوئی بند نہیں کر سکتا۔ ‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۰۴)

 کتاب ازالہ اوہام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :

’’ میری روزانہ زندگی کا آرام اسی میں ہے کہ میں اسی کام میں لگا رہا ہوں۔ بلکہ میں اس کے بغیر جی ہی نہیں سکتا کہ میں اُس کا اور اُس کے رسول کا اور اُ س کی کلام کا جلال ظاہر کروں۔ مجھے کسی کی تکفیر کا اندیشہ نہیں اور نہ کچھ پروا۔ میرے لئے یہ بس ہے کہ وہ راضی ہو جِس نے مجھے بھیجا ہے ہاں میں اِس میں لذت دیکھتا ہوں کہ جو کچھ اُس نے مجھ پر ظاہر کیا وہ میں سب لوگوں پر ظاہر کروں اور یہ میرا فرض بھی ہے کہ جو کچھ مجھے دیا گیا وہ دوسروں کو بھی دوں۔ اور دعوتِ مولیٰ میں اُن سب کو شریک کر لوں جو ازل سے بلائے گئے ہیں۔ میں مشاہدہ کر رہا ہوں کہ ایک دستِ غیبی مجھے مدد دے رہا ہے۔ ‘‘ (روحانی خزائن جلد ۳ ازالہ اوہام ۵۱۹)

 سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ  نے اُردو زبان کے علاوہ عربی فارسی زبان میں بھی کتب تحریر کیں ان کتب کا مطالعہ کرنے سے جو ایمان اور یقین کا نور اور معرفت حاصل ہوتی ہے اور جو روحانی سرور اور لذت حاصل ہوتا ہے اس سے ثابت ہوتی ہے کہ یہ تمام تحریرات حضرت مسیح موعودؑ  کی صداقت کا بین ثبوت ہیں اور عربی زبان کا علم آپؑ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا تھا۔

چنانچہ آپؑ اپنی تصنیف لطیف انجامِ آتھم میں تحریر فرماتے ہیں کہ : ’’وان کمالی فی اللسان العربی مع قلۃ جھدی و قصور طلبی ایۃ واضحۃ من ربی لیظھرہ علی الناس علمی و ادبی۔وانی مع ذالک علمت اربعین الفا من اللغۃ العربیۃ واعطیت بسطۃ کاملۃ فی العلوم الادبیۃ‘‘

(انجام آتھم روحانی خزائن جلد 11 ص 234)

 یعنی عربی زبان میں باوجود میری کمی کوشش اور کوتاہی جستجو کے جو مجھے کمال حاصل ہے وہ میرے ربّ کی طرف سے ایک کھلا نشان ہے تا وہ لوگوںپر میرے علم اور میرے ادب کو ظاہر کرےاور اسکے ساتھ مجھے یہ فخر بھی حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے چالیس ہزار مادہ عربی زبان کا سکھایاگیا۔اورمجھے ادبی علوم پر پوری وسعت عطا کی گئی ہے۔

اور ایک جگہ عربی زبان کے تعلق سے آپ فرماتےہیں کہ:

’’ میں قرآن شریف کے معجزہ کے ظل پر عربی بلاغت فصاحت کا نشان دیا گیاہوں کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کر سکے۔ ‘‘

(ضرورۃ الامام، روحانی خزائن جلد 13 ص 496)

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ  کی تحریرات کی اہمیت اور انکی برکات کا انداز ہ اس بات سے بھی ہو جاتاہے کہ دوران کتابت بعض کتب کی مقبولیت اور اہمیت کے تعلق سے آپ کو خداتعالیٰ کی خوشنودی اور بشارت اور حضرت نبی کریم ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی۔

حضرت مسیح موعودؑ  جب آئینہ کمالات اسلام تحریر فرمارہے تھے تواللہ تعالیٰ نے دومرتبہ آپ کو آنحضرت ﷺؑ  کی زیارت کرائی چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ ’’ اس کتاب کی تالیف پر بہت مسرت ظاہر کی اور ایک رات یہ بھی دیکھا کہ ایک فرشتہ بلند آواز سے لوگوں کے دلوں کو اس

طرف بلاتاہے اور کہتاہے۔ ھذا کتاب مبارک فقومواللاجلال والاکرام‘‘یعنی یہ کتاب مبارک ہے اسکی تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاؤ‘‘

(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 ص 652) پس خدام الاحمدیہ کی بابرکت تنظیم سے وابستہ نوجوانوںعصر حاضر میں حضرت مسیح موعودؑ  کی ان حیات بخش تعلیمات سے ایک طرف ہمارے قلب و ذہن منور ہونگے تو دوسر ی طرف ہم خداکا قرب اور اس کی رضا حاصل کرنے والے ہونگے۔ پس اے خدام احمدیت !اے مسیح موعودؑ کے درخت وجود کی سرسبز شاخواس وقت یہ تقاضاہے کہ حضرت مسیح موعودؑ  کے علم کلام سےاپنے نفوس کو منور کیا جائے اور آپ ان خزائن روحانیہ کو دنیا میں پھیلانے کا عزم کرلیں تاکہ دنیا ہر قسم کی آفات سے محفوظ ہوجائے اور دنیا کے تمام لوگ حضرت مسیح موعودؑ  کی کتب کے حصن حصین اور عافیت کے حصار میں پناہ لینے والے ہوں۔ آمین۔

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)