حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حق میں انشا ء پر دازی کے دوران تائیدات ِ الٰہیہ اور ایمان افروز واقعات کا ظہور

(تنویر احمد ناصر، نائب ایڈیٹر اخبار بدر قادیان)

حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ اپنی کتاب ’’سیرت حضرت مسیح موعودؑ ‘‘میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب المصلح الموعود ؓ کے بچپن کا ایک عجیب واقعہ لکھتے ہیں کہ:

’’محمود چار ایک برس کا تھا۔ حضرت (حضرت مسیح موعود ؑ -ناقل)معمولاً اندر بیٹھے لکھ رہے تھے۔ میاں محمود دیا سلائی لیکر وہاں تشریف لائے اور آپ کے ساتھ بچوں کا ایک غول بھی تھا۔ پہلے کچھ دیر آپس میں کھیلتے جھگڑتے رہے پھر جو کچھ دل میں آئی، ان مسوادات کو آگ لگا دی اور آپ لگے خوش ہونے اور تالیاں بجانے۔ اور حضرت لکھنے میں مصروف ہیں، سر اُٹھا کر دیکھتے بھی نہیں کہ کیا ہور ہا ہے۔ اتنے میں آگ بجھ گئی اور قیمتی مسودے راکھ کا ڈھیر ہو گئے۔ اور بچوں کو کسی اور مشغلہ نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ حضرت کو سیاق عبارت ملانے کے لیے کسی گزشتہ کاغذ کے دیکھنے کی ضرورت ہوئی۔ اس سے پوچھتے ہیں خاموش۔ اس سے پوچھتے ہیں دبکا جاتا ہے۔ آخر ایک بچہ بول اٹھا کہ میاں صاحب نے کاغذ جلا دئیے ہیں ۔ عورتیں بچے اور گھر کے سب لوگ حیران اور انگشت بدنداںکہ اب کیا ہوگا…مگر حضرت مسکرا کر فرماتے ہیں، خوب ہوا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی بڑی مصلحت ہوگی۔ اور اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس سے بہتر مضمون ہمیں سمجھائے۔ ‘‘

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ ،مطبوعہ کینیڈا صفحہ 23)

اس واقعہ سے جہاں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےایک نہایت خوبصورت خلق عفو و درگزر کا پتا چلتا ہے وہیں اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ جو علوم کے دریا آپؑ نے بہائے وہ خدا تعالیٰ نے ایک خاص حکمت کے تحت آپؑ کو اپنی جناب سے عطا فرمائےتھے۔جس زمانہ میں آپؑ کا ظہور ہوااس وقت اسلام چاروں طرف دشمنان اسلام کے الزامات واعتراضات سے گھرا ہوا تھا۔ خصوصا عیسائی اور آریہ سماجی نہایت گندی اور اشتعال انگیز تحریرات اسلام کے خلاف شائع کر رہے تھے۔ ان حالات کو دیکھ کر آپؑ کا دل ماہی ٔ بے آب کی طرح تڑپتا تھا۔ آپؑ کی اس بے قراری کا اندازہ آپؑ کی اس دعا سے ہوتا ہے۔ اپنے مولا کے حضور آپؑ عرض کرتے ہیں :

’’خدایا مجھے ایسے الفاظ عطا فرما اور ایسی تقریر یں الہام کر جو ان دلوں پراپنا نور ڈالیں اور اپنی تریاقی خاصیت سے ان کی ز ہرکو دور کر دیں۔‘‘

(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد 6صفحہ 398)

اللہ تعالیٰ نے آپؑ کی دعائوں کو بپایہ ٔقبولیت جگہ دی اور آپؑ کی تضرعات کو سنا اورمعاندین اسلام کے اعتراضات کا قلع قمع کرنے کے لیے عربی، فارسی اور اردو زبانوں پر آپؑ کو کامل دسترس عطا فرمائی اور انہیں آپؑ کا کامل مطیع اور فرمانبردار کر دیا اور یہ ملکہ آپ کو عطا فرمایا کہ خواہ کیساہی موضوع ہو آپؑ بڑی آسانی کے ساتھ مدلل اور مبسوط مضمون قلمبند کرتے اور جس زبان میں لکھتےاس کے نہایت موزوں الفاظ اپنی اپنی جگہ پر موتیوں کی طرح جڑے نظر آتے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑکوسیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے ظل اور بروز کے طور پر مبعوث فرمایا ہے۔ آنحضرت ﷺ کا زمانہ تکمیل ہدایت کا زمانہ تھا اور آپؐ کی بعثت ثانیہ کا زمانہ تکمیل اشاعت ہدایت۔ تکمیل ہدایت تو آنحضور ﷺ کے زمانہ میں بطریق احسن ہو گئی لیکن چونکہ دیگرزبانوں تک دین اسلام کے پہنچنے میں بہت سی مشکلات تھیں اس لیے خدا تعالیٰ نے تکمیل اشاعت ہدایت کو آنحضور ﷺ کی بعثت ثانیہ پر ملتوی کر دیا اللہ تعالیٰ نے جو فصاحت و بلاغت بطور نشان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عطا فرمائےاس کے متعلق آپؑ فرماتے ہیں:

’’میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخش رہی ہے۔‘‘

(ازالہ اوہام از روحانی خزائن جلد3ص403)

نیز فرمایا :’’براہین احمدیہ میں یہ پیشگوئی ہے کہ تجھے عربی زبان میں فصاحت و بلاغت عطا کی جائے گی جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ چنانچہ اب تک کوئی مقابلہ نہ کر سکا۔‘‘

(حقیقۃالوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 235)

آپ فرماتے ہیں :’’اس بارہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا تھا۔ کَلَامٌ اُفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَبٍّ کَرِیْمٍ۔ اور جو مَیں نے اب تک عربی میں کتابیں بنائی ہیں جن میں سے بعض نثر میں ہیں اور بعض نظم میں۔ جس کی نظیر علماء مخالف پیش نہیں کر سکے ان کی تفصیل یہ ہے۔ رسالہ ملحقہ انجام آتھم صفحہ 73 سے صفحہ 282 تک (عربی میں ہے)۔ التبلیغ ملحقہ آئینہ کمالات اسلام۔ کرامات الصادقین۔ حمامۃ البشریٰ۔ سیرت الابدال۔ نور الحق حصہ اول۔ نورالحق حصہ دوم۔ تحفہ بغداد۔ اعجاز المسیح۔ اتمام الحجۃ۔ حجۃ اللہ۔ سر الخلافۃ۔ مواھب الرحمن۔ اعجاز احمدی۔ خطبہ الہامیہ۔ الہدیٰ۔ علامات المقربین ملحقہ تذکرۃ الشہادتین۔ اور وہ کتابیں جو عربی میں تالیف ہو چکی ہیں مگر ابھی شائع نہیں ہوئیں یہ ہیں۔ ترغیب المؤمنین۔ لجۃ النور۔ نجم الہدیٰ۔‘‘

(حقیقۃالوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 235۔ حاشیہ)

آپؑ انشا پردازی میں خدا تعالیٰ کی غیبی تائید و نصرت کے متعلق فرماتے ہیں :’’میں خاص طور پر خدا تعالیٰ کی اعجاز نمائی کو انشا ءپردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتاہوں کیونکہ جب مَیں عربی میں یا اردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو مَیں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے اور ہمیشہ میری تحریر گو عربی ہو یا اردو یا فارسی، دو حصہ پرمنقسم ہوتی ہے۔ (1)۔ ایک تو یہ کہ بڑی سہولت سے سلسلہ الفاظ اور معانی کا میرے سامنے آتا جاتا ہے اور مَیں اُس کو لکھتا جاتا ہوں اور گو اُس تحریر میں مجھے کوئی مشقّت اٹھانی نہیں پڑتی مگر دراصل وہ سلسلہ میری دماغی طاقت سے کچھ زیادہ نہیں ہوتا۔ یعنی الفاظ اور معانی ایسے ہوتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کی ایک خاص رنگ میں تائیدنہ ہوتی تب بھی اس کے فضل کے ساتھ ممکن تھا کہ اس کی معمولی تائید کی برکت سے جو لازمہ فطرت خواص انسانی ہے کسی قدر مشقّت اٹھا کر اور بہت سا وقت لے کر ان مضامین کو مَیں لکھ سکتا۔ وَاللّٰہُ اَعْلَم۔ (2)۔ دوسرا حصہ میری تحریر کا محض خارق عادت کے طور پر ہے اور وہ یہ ہے کہ جب میں مثلاًایک عربی عبارت لکھتا ہوں اور سلسلۂ عبارت میں بعض ایسے الفاظ کی حاجت پڑتی ہے کہ وہ مجھے معلوم نہیں ہیں تب ان کی نسبت خدا تعالیٰ کی وحی رہنمائی کرتی ہے اور وہ لفظ وحی مَتلُوّ کی طرح روح القدس میرے دل میں ڈالتا ہے اور زبان پر جاری کرتا ہے اور اس وقت میں اپنی حِسّ سے غائب ہوتا ہوں۔ مثلاً عربی عبارت کے سلسلہ تحریر میں مجھے ایک لفظ کی ضرورت پڑی جو ٹھیک ٹھیک بسیاریٔ عیال کا ترجمہ ہے اور وہ مجھے معلوم نہیں اور سلسلہ عبارت اس کا محتاج ہے تو فی الفور دل میں وحی متلُوّ کی طرح لفظ ضفف ڈالا گیا جس کے معنی ہیں بسیاری عیال۔ یا مثلاً سلسلہ تحریر میں مجھے ایسے لفظ کی ضرورت ہوئی جس کے معنی ہیں غم و غصّہ سے چپ ہو جانا اور مجھے وہ لفظ معلوم نہیں تو فی الفور دِل پر وحی ہوئی کہ وَجُوم۔ ایسا ہی عربی فقرات کا حال ہے۔ عربی تحریروں کے وقت میں صدہا بنے بنائے فقرات وحی متلُوّ کی طرح دِل پر وارد ہوتے ہیں اور یا یہ کہ کوئی فرشتہ ایک کاغذ پر لکھے ہوئے وہ فقرات دکھا دیتا ہے اور بعض فقرات آیات قرآنی ہوتے ہیں یا ان کے مشابہ کچھ تھوڑے تصرّف سے۔ اور بعض اوقات کچھ مدّت کے بعد پتہ لگتا ہے کہ فلاں عربی فقرہ جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے برنگ وحی متلُوّالقاء ہوا تھا وہ فلاں کتاب میں موجود ہے۔ چونکہ ہر ایک چیز کا خدا مالک ہے اس لئے وہ یہ بھی اختیار رکھتا ہے کہ کوئی عمدہ فقرہ کسی کتاب کا یا کوئی عمدہ شعر کسی دیوان کا بطور وحی میرے دل پر نازل کرے۔ یہ تو زبان عربی کے متعلق بیان ہے۔ مگر اس سے زیادہ تر تعجب کی یہ بات ہے کہ بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں بھی ہوتے ہیں جن سے مجھے کچھ بھی واقفیت نہیں جیسے انگریزی یا سنسکرت یا عبرانی وغیرہ جیسا کہ براہین احمدیہ میں کچھ نمونہ ان کا لکھا گیا ہے۔ اور مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یہی عادت اللہ میرے ساتھ ہے اور یہ نشانوں کی قسم میں سے ایک نشان ہے جو مجھے دیا گیا ہے جومختلف پیرایوں میں امور غیبیہ میرے پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور میرے خدا کو اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کہ کوئی کلمہ جو میرے پر بطور وحی القاء ہو وہ کسی عربی یا انگریزی یا سنسکرت کی کتاب میں درج ہو کیونکہ میرے لئے وہ غیب محض ہے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بہت سے توریت کے قصے بیان کرکے ان کو علم غیب میں داخل کیا ہے کیونکہ وہ قصّے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے علمِ غیب تھا گو یہودیوں کے لئے وہ غیب نہ تھا۔ پس یہی راز ہے جس کی وجہ سے مَیں ایک دنیا کو معجزہ عربی بلیغ کی تفسیر نویسی میں بالمقابل بلاتا ہوں۔ ورنہ انسان کیا چیز اور ابنِ آدم کیا حقیقت کہ غرور اور تکبر کی راہ سے ایک دنیا کو اپنے مقابل پر بلاوے۔‘‘

(نزول المسیح۔ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 434 تا 436)

حضرت مسیح موعودؑنے اسلام کی خدمت کیلئے 1872ء سے ہی قلمی جہاد کاآغاز فرمایااورمنشورمحمدی (جوکہ بنگلور کرناٹک) سے شائع ہوتاتھا میں مضامین تحریر فرماکر ارسال فرمانے لگے۔آپؑ کی کتابوں کو ’’روحانی خزائن‘‘ کے نام سے جمع کرکے 23جلدوں میں شائع کیا گیاہے۔

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی پہلی تصنیف براہین احمدیہ ہے۔جو 1880سے 1884 کے درمیان 4جلدوں میں شائع ہوئی۔ یہ ایک معرکۃ الآراء تصنیف تھی جسکے منظر عام پر آنے سے برصغیر ہندوپاک کی مذہبی دنیا میں  ایک تہلکہ مچ گیاتھا۔

اِس کتاب کی اشاعت کے بعد مسلمانوں کاحوصلہ بلندہوا۔ارتداد کاطوفان تھم گیا۔کئی مسلم علماء نے اِس کتاب کی تعریف کی۔ جن میں مولوی محمد حسین بٹالوی جیسے اشد ترین معاند احمدیت بھی شامل ہیں۔

براہین احمدیہ کاردّلکھنے والے کیلئے آپ نے دس ہزار روپئے کا نقد انعام مقررفرمایا۔ اِس اعلان کے بعد کئی مخالفینِ اسلام نے اِس کتاب کا ردّ لکھنے کااعلان کیاتوایسے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے آپؑ فرمایا:

 ’’سب صاحبوں کو قسم ہے کہ ہمارے مقابلہ پر ذرا توقف نہ کریں افلاطون بن جاویں بیکن کا اوتاردھاریں ارسطوکی نظر اورفکر لاویں اپنے مصنوعی خداؤں کے آگے استمدادکیلئے ہاتھ جوڑیں پھردیکھیں جو ہماراخداغالب آتاہے یا آپ لوگوں کے اٰلہہ باطلہ۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ دوم،روحانی خزائن، جلد1، صفحہ56،57)

ماسٹ مرلی دھر صاحب سے مباحثہ اور عظیم الشان خدائی تائید و نصرت

حضرت مسیح موعود ؑکے سفر ہوشیار پور کے دوران مارچ 1886میں آریہ سماج کے ایک ممتاز رکن ماسٹر مرلی دھر کے ساتھ ایک مباحثہ ہوا۔ اس مباحثہ میں حضرت مسیح موعود ؑنے آریہ سماج پر زبر دست تنقید کی اور معجزات و خوارق قرآنی، عجائبات عالم، روح کے خواص، کشف قبور، انسان کامل اور قانون قدرت جیسے اہم مسائل پر بڑی لطیف روشنی ڈالی۔یہ مباحثہ تحریری تھا۔ ماسٹرمرلی دھر صاحب نے حضرت مسیح موعود ؑکےخدائی تائید و نصرت سے بھرے ہوئے جوابات سے عاجز آکر مباحثہ بیچ میں ہی چھوڑ دیا۔ بعد میں یہ مباحثہ کتاب ’’سرمہ چشم آریہ ‘‘کے نام سے شائع ہوا۔اس کتاب کا ردّ لکھنے والے کو پانچ صدروپیہ انعام دینے کا چیلنج بھی دیاہے۔اسی کتاب میں ایک’’ اشتہار انعامی پانچ سو روپیہ ‘‘ میں اس چیلنج کے بارے میںآپؑ فرماتے ہیں: ’’یہ کتاب یعنے سرمہ چشم آریہ بتقریب مباحثہ لالہ مرلی دھر صاحب ڈرائنگ ماسٹر ہوشیارپور جو عقائد باطلہ وید کی بکلّی بیخ کنی کرتی ہے اس دعویٰ اور یقین سے لکھی گئی ہے کہ کوئی آریہ اس کتاب کا رد نہیں کرسکتا کیونکہ سچ کے مقابل پر جھوٹ کی کچھ پیش نہیں جاتی اور اگر کوئی آریہ صاحب ان تمام وید کے اصولوں اور اعتقادوں کو جو اس کتاب میں رد کئے گئے ہیں سچ سمجھتا ہے اور اب بھی وید اور اس کے ایسے اصولوں کو ایشرکرت ہی خیال کرتا ہے تو اس کو اسی ایشر کی قسم ہے کہ اس کتاب کا رد لکھ کر دکھلاوے اور پانسو روپیہ انعام پاوے۔ یہ پانسو روپیہ بعد تصدیق کسی ثالث کے جو کوئی پادری یا برہمو صاحب ہوں گے دیا جائے گا۔ ‘‘

(سرمہ چشم آریہ،روحانی خزائن، جلد2، صفحہ321)

لیکن آج تک کوئی بھی اِس چیلنج کوقبول کرکے اِس کتاب کا ردّ نہیں لکھ سکااور نہ انعام حاصل کرسکا۔

علماء وقت کو تحریری مباحثہ کی دعوت اور عظیم الشان خدائی تائید و نصرت

حضرت مسیح موعودؑ نے لدھیانہ سے ۲۶۔ مارچ ۱۸۹۱ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ تمام مشہور علماء بالخصوص مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی، مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی، مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی، مولوی عبدالرحمن صاحب لکھو کے والے، مولوی شیخ عبداللہ صاحب تبتی، مولوی عبدالعزیز صاحب لدھیانوی اور مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری کو تحریری مباحثہ کا چیلنج دیا اور لکھا کہ میرا دعویٰ ہر گز قال اللہ اور قال الرسول کے خلاف نہیں اگر آپ حضرات مقام و تاریخ مقرر کرکے ایک عام جلسہ میں مجھ سے تحریری بحث نہیں کریں گے تو آپ خدا تعالیٰ اور اس کے راست باز بندوں کی نظر میں مخالف ٹھہریں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس اشتہار پراور تو کوئی سامنے نہ آیا لیکن مولوی محمد حسین بٹالوی نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ مرزا صاحب کو چاہئے کہ وہ مجھ سے مباحثہ کر لیں۔ حضرت اقدسؑ کا مولوی محمد حسین صاحب سے مباحثہ شروع ہوا۔ یہ مناظرہ تحریری تھا اور ۲۰ سے ۲۹ جولائی ۱۸۹۱ء تک یعنی دس روز جاری رہا۔ مباحثہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بخاری شریف رکھ لیتے اور قلم برداشتہ لکھتے جاتے جب مضمون تیار ہو جاتا تو پڑھ کر سنا دیا جاتا۔ مگر ادھر بڑی مشکل سے مضمون تیار کیا جاتا۔ اور بڑی دقت سے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اپنا مضمون تیار کرکے سناتے۔

ایک معجزہ : (حضرت پیر سراج الحق صاحب کی روایت کے مطابق) ’’اس مباحثہ کے دوران میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بخاری کا ایک حوالہ طلب کیا۔ اس وقت وہ حوالہ حضرت اقدسؑ کو یا د نہیں تھا۔ اور نہ آپ کے خادموں میں سے کسی اور کو یاد تھا۔ مگر حضرت اقدسؑ نے بخاری شریف کا نسخہ منگایا اور اس کی ورق گردانی شروع کر دی اور جلدجلد اس کا ایک ایک ورق الٹنے لگے اور آخر ایک جگہ پہنچ کر آپ ٹھہر گئے اور فرمایا۔ لو یہ دیکھ لو۔ دیکھنے والے سب حیران تھے کہ یہ کیا ماجراہے کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ جب میںنے کتاب ہاتھ میں لے کر ورق الٹانے شروع کئے تو مجھے کتاب کے صفحات ایسے نظر آتے تھے کہ گویا وہ خالی ہیں اور ان پر کچھ نہیں لکھا۔ اس لئے میں ان کو جلد جلد الٹاتا گیا آخر مجھے ایک صفحہ ملا جس پر کچھ لکھا ہوا تھا۔ اور مجھے یقین ہوگیا کہ یہ وہی حوالہ ہے جس کی مجھے ضرورت ہے گویا اللہ تعالیٰ نے ایسا معجزانہ تصرف فرمایا کہ اس جگہ کے سوا جہاں حوالہ درج تھا باقی تمام اوراق آپ کو خالی نظر آئے۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 408)

اس مباحثہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حدیث اور قرآن شریف کے مقام پر سیر کن بحث کی ہے اور آئندہ کے لیے تمام بحثوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اس مباحثہ میں مولوی محمد حسین بٹالوی نے بہت چالاکیاں کیں لیکن وہ سب ان پر الٹی پڑیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اسے قرآن کی طرف لاتے تھے لیکن وہ اپنےبچائو کے لیے حدیث کی طرف بھاگتا تھا۔ اصل بحث وفات و حیات ِ مسیح پر ہونی تھی لیکن وہ اس سے بھی گریز کرتا رہا۔ آخری روز جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پرچہ سناناشروع کیا تو مولوی صاحب کا چہرہ سیاہ پڑگیا اور ایسی گھبراہٹ ہوئی اور اس قدر حواس باختہ ہوئے کہ نوٹ کرنے کے لئے جب قلم اٹھایا تو زمین پر قلم مارنے لگے دوات جوں کی توں رکھی رہ گئی اور قلم چند بار زمین پر مارنے سے ٹوٹ گیا اور جب یہ حدیث آئی کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ہے کہ جو حدیث معارض قرآن ہو وہ چھوڑ دی جائے۔ اور قرآن کو لے لیا جائے تو اس پر مولوی محمد حسین صاحب کو نہایت غصہ آیا اور  کہا یہ حدیث بخاری میں نہیں ہے۔ اور جو یہ حدیث بخاری میں ہوتو میری دونوں بیویوں پر طلاق ہے اس طلاق کے لفظ سے تمام لوگ ہنس پڑے اور مولوی صاحب کو مارے شرم کے اور کچھ نہ بن پڑا۔ اور بعد کو کئی روز تک لوگوں سے مولوی صاحب کہتے رہے کہ نہیں نہیں میری دونوں بیویوں پر طلاق نہیں پڑی۔ اور نہ میں نے طلاق کا نام لیا ہے۔ پہلے تو چند لوگوں کو اس کی خبر تھی لیکن اب مولوی صاحب ہی نے ہزاروں کو اس کی اطلاع کر دی۔کئی ماہ بعد جبکہ یہ مباحثہ شائع ہو چکا تھا۔ دلی میں ایک جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں بہت سے علماء نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی پر زبردست تنقید کی کہ تم نے جو مرزا صاحب سے لدھیانہ میں مباحثہ کیا ہے اس میں تم نے کیا کیا اور کیا کر کے دکھایا اصل بحث تو کچھ بھی نہ ہوئی بٹالوی صاحب نے جواب دیا کہ اصل بحث کس طرح کرتا۔ اس کا پتہ ہی نہیں۔ قرآن شریف میں مسیحؑ کی حیات یا رفع الی السماء کا کوئی ذکر نہیں۔ حدیثوں سے صرف نزول ثابت ہوتاہے میں مرزا صاحب کو حدیثوں پرلاتاتھا اور وہ مجھے قرآن کی طرف لے جاتے تھے۔ پھر ان علماء نے کہاکہ مرزا صاحب نے تو بحث چھاپ دی تم نے اب تک کیوں نہ چھاپی۔ بٹالوی صاحب نے کہا اشاعۃ السنہ میں چھاپوں گا۔ انہوںنے کہا اس بحث کو الگ رسالہ کی شکل میں مکمل کرکے چھپوانا تھا۔ اس طرح علماء نے انہیں بہت شرمندہ کیا۔(ایضا صفحہ 410)

مباحثہ الحق دہلی اور انشا ءپردازی کا عظیم الشان معجزہ

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے دعویٰ کی تبلیغ و اشاعت کے لئےدہلی بھی تشریف لے گئے۔ ۲۹؍ ستمبر ۱۸۹۱ء کو دلی پہنچے اور نواب لوہاروکی دو منزلہ کوٹھی واقع محلہ بلیماراں میں قیام فرماہوئے۔ اور سید نذیر حسین صاحب دہلوی اور شمس العلمامولوی عبدالحق صاحب کو وفات مسیح ؑ پر تحریری مباحثہ کی دعوت دی۔ مولوی عبدالحق صاحب نے تو معذرت کرلی لیکن مولوی نذیر حسین صاحب مولوی محمد حسین بٹالوی کی انگیخت پر مباحثہ کے لیے آمادہ ہو گئے۔ اس کے بعد مولوی محمد حسین بٹالوی اور ان کے رفقا کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا جو بازار گرم ہوااور کس طرح شیر خدا نےدہلی کی جامع مسجد میں مولوی نذیر حسین کو للکارا وہ تاریخ احمدیت کا ایک کھلا باب ہے۔ مولوی نذیر حسین صاحب تو کسی طرح اس مباحثہ کا تلخ گھونٹ پینے سے بچ گئے لیکن مولوی محمد بشیر صاحب مباحثہ کے لیے آمادہ ہوگئے اور 23 ؍اکتوبر 1891 کو مباحثہ کا آغاز ہوا۔

حضرت مسیح موعود ؑنے مباحثہ شروع ہونے سے قبل اپنے دعویٰ سے متعلق مولوی محمد بشیر صاحب اور ان کے رفقاء کو مخاطب کرکے ایک پر معارف تقریر فرمائی۔ حضورؑ کی یہ تقریر ابھی جاری ہی تھی کہ مولوی محمد بشیر صاحب دوران تقریر ہی میں بول اٹھے کہ آپ اجازت دیں تو میں دالان کے پرلے گوشے میں جابیٹھوں اور وہاں کچھ لکھوں۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا۔ بہت اچھا!چنانچہ مولوی صاحب دالان کے اس گوشہ میں جابیٹھے اور جو مضمون گھر سے لکھ کر لائے تھے نقل کروانے لگے۔ حالانکہ شرط یہ تھی کہ کوئی اپنا پہلا مضمون نہ لکھے بلکہ جو کچھ لکھنا ہوگا وہ اسی وقت جلسہ بحث میں لکھنا ہوگا۔ اس خلاف ورزی پر مولانا عبدالکریم صاحب نے کہا یہ تو خلاف شرط ہے۔ پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے حضرت اقدس سے عرض کیا کہ حضور اجازت دیں تو میں مولوی صاحب سے کہہ دوں کہ آپ لکھا ہوا تو لائے ہیں یہی دے دیجئے۔ تاکہ اس کا جواب لکھا جائے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کی بکراہت اجازت دے دی۔ انہوں نے کھڑے ہو کر کہا کہ مولوی صاحب لکھے ہوئے مضمون کو نقل کرانے کی کیا ضرورت ہے دیر ہوتی ہے لکھا ہوا مضمون دے دیجئے۔ تاکہ ادھر سے جلدی جواب لکھا جائے۔ مولوی صاحب نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے گھبرا کر جواب دیا۔ نہیں نہیں! میں مضمون لکھ کر تو نہیں لایا صرف نوٹ لکھ لایا تھا، جنہیں مفصل لکھ رہا ہوں۔ حالانکہ وہ مضمون کو حرف بحرف ہی لکھوا رہے تھے اس کے جواب میں پیر صاحب نے کچھ کہنا چاہا۔ مگر حضرت اقدسؑ نے انہیں روک دیا۔ اور حضور نے منشی ظفر احمد صاحب سے یہ فرمایاکر کہ جب مولوی صاحب مضمون دیں تو مجھے بھیج دیا جائے،بالاخانے پر تشریف لے گئے اور مولوی صاحب کے مضمون دینے پر منشی صاحب نے وہ لے جاکر حضور کی خدمت میں پیش کر دیا۔ حضرت اقدسؑ نے مولوی صاحب کے مضمون پر پہلے صفحہ سے لے کر آخر صفحہ تک بہت تیزی سے نظر فرمائی اور اس کا جواب لکھنا شروع کر دیا۔ جب مضمون کے دو ورق تیار ہوگئے تو حضور منشی ظفر احمد صاحب کو نیچے نقل کرنے کو دے آئے۔ ایک ایک ورق لے کر مولوی عبدالکریم صاحب اور عبدالقدوس صاحب نے نقل کرنا شروع کیا۔ اسی طرح منشی صاحب حضرت صاحب کا مسودہ لاتے اور یہ دونوں صاحب نقل کرتے رہتے۔ حضرت اقدسؑ اتنی تیزی سے لکھ رہے تھے کہ عبدالقدوس صاحب جو خود بھی بڑے زودنویس تھے متحیر ہوگئے۔ اور حضور کی تحریر پر انگلی کا پورا لگا کر سیاہی دیکھنے لگے کہ یہ کہیں پہلے کا لکھا ہوا تو نہیں۔ منشی ظفر احمد صاحب نے کہا کہ اگر ایسا ہو تو یہ ایک عظیم الشان معجزہ ہوگا کہ جواب پہلے سے لکھا ہوا ہے۔ حضرت اقدسؑ کی یہ حیرت انگیز قوت تصنیف دیکھ کر مولوی محمد بشیر صاحب کو حضور کی خدمت میں درخواست کرنی پڑی کہ اگر آپ اجازت دیدیں تو میں کل اپنے جائے قیام ہی سے جواب لکھ لائوں۔ حضور نے بے تامل اجازت دیدی اور پھر مولوی صاحب نے مباحثہ کے ختم ہونے تک یہی طریقہ رکھا۔ کہ حضرت اقدسؑ کا مضمون ملنے پر حضور سے اجازت لے کر اپنے جائے قیام پر چلے جاتے اور مضمون وہیں سے لکھ کر لاتے انہوں نے سامنے بیٹھ کر کوئی مضمون تحریر نہیں کیا۔اس مباحثہ کی روداد’’ الحق دہلی‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔

(تاریخ احمدیت جلد اول، ملخص صفحہ 421تا 432)

کتاب آئینہ کمالات اسلام اور رسالہ التبلیغ کی اشاعت اور خدا تعالیٰ کی طرف ایک رات میں عربی زبان کا چالیس ہزار مادے کا حصول

حضرت مسیح موعود ؑنے سن 1893 میںکتاب آئینہ کمالات اسلام تصنیف فرمائی۔ جس میں متعدد اہم مباحث مثلاً مقام فنا، بقا، لقا، روح القدس کی دائمی رفاقت اورملائک وجنات کے وجود کے ثبوت پر جدید زاویہ نگاہ سے روشنی ڈالی۔ جنوری ۱۸۹۳ء کو جب کتاب کا اردو حصہ مکمل ہوچکا تو مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے ایک مجلس میں حضرت اقدسؑ سے عرض کی کہ اس کتاب کے ساتھ مسلمان فقراء اور پیرزادوں پر اتمام حجت کے لئے ایک خط بھی شائع ہونا چاہیئے۔ حضور نے یہ تجویز بہت پسند کی۔ آپ کا ارادہ تھا کہ یہ خط اردو میں لکھا جائے لیکن رات کوبعض اشارات الہامی میں آپ کو عربی میں لکھنے کی تحریک ہوئی۔ اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرنے پر آپ کو رات ہی رات میں عربی کا چالیس ہزار مادہ سکھا دیا گیا۔ چنانچہ آپ نے اسی الہامی قوت سے ’’التبلیغ‘‘ کے نام سے فصیح وبلیغ عربی میں ایک خط لکھا جس میں آپ نے ہندوستان، عرب، ایران، ترکی، مصر اور دیگر ممالک کے پیرزاردوں، سجادہ نشینوں، زاہدوں، صوفیوں اور خانقاہ نشینوں تک پیغام حق پہنچا دیا۔’’التبلیغ‘‘ کے بعد عربی زبان میں حضورؑ نے وہ بے نظیر لڑیچر پیدا کیا کہ فصحائے عرب وعجم کی زبانیں اس کے مقابلے میں گنگ ہوگئیں۔ ’’التبلیغ‘‘ کے متعلق ایک عرب فاضل نے کہا کہ اسے پڑھ کر ایسا وجد طاری ہوا کہ دل میں آیا کہ سر کے بل رقص کرتا ہوا قادیان پہنچوں۔طرابلس کے ایک مشہور عالم السید محمد سعیدی شامی نے اسے پڑھتے ہی بے ساختہ کہا۔ واللہ ایسی عبارت عرب نہیں لکھ سکتا۔ اور بالاخر اسی سے متاثر ہو کر احمدیت قبول کرلی۔ حضرت اقدس فرمایا کرتے تھے۔ کہ ہماری جتنی عربی تحریریں ہیں یہ سب ایک رنگ کی الہامی ہی ہیں کیوں کہ سب خدا کی خاص تائید سے لکھی گئی ہیں۔ فرماتے تھے بعض اوقات میں کئی الفاظ اور فقرے لکھ جاتاہوں۔ مگر مجھے ان کے معنے نہیں آتے۔ پھر لکھنے کے بعد لغت دیکھتا ہوں تو پتہ لگتا ہے۔

ان کتابوں کا یہ اعجازی رنگ دیکھ کر مخالف علماء کو یقین ہی نہیں آتا تھا کہ یہ آپ کی تالیفات ہیں وہ قطعی طور پر سمجھتے تھے کہ آپ نے اسی غرض کے لئے علماء کا کوئی خفیہ گروہ ملازم رکھا ہوا ہے چنانچہ ایک دفعہ ایک مولوی صاحب اس ’’خفیہ گروہ ‘‘ کا سراغ لگا نے کے لئے قادیان آئے اور رات کے وقت مسجد مبارک میں گئے۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی ان دنوں مسجد مبارک سے ملحق کمرے میں مقیم تھے مولوی صاحب نے حضرت منشی صاحب سے پوچھا کہ مرزا صاحب کی عربی تصانیف ایسی ہیں کہ ان جیسی کوئی فصیح بلیغ عبارت نہیں لکھ سکتا ضرور مرزا صاحب کچھ علماء سے مدد لے کر لکھتے ہوں گے اور و ہ وقت رات ہی کا ہوسکتا ہے تو کیا رات کو کچھ آدمی ایسے آپ کے پاس رہتے ہیں جو اس کام میں مدد دیتے ہوں حضرت منشی صاحب نے کہا مولوی محمد چراغ صاحب اور مولوی معین صاحب ضرور آپ کے پاس رہتے ہیں یہی علماء رات کو امداد کرتے ہوں گے۔ حضرت اقدسؑ کو منشی صاحب کی یہ آواز پہنچ گئی اور حضور بہت ہنسے۔ کیوں کہ مولوی محمد چراغ صاحب اور مولوی معین الدین صاحب دونوں حضور کے ان پڑھ ملازم تھے اس کے بعد مولوی صاحب موصوف اٹھ کر چلے گئے۔ اگلے روز جب حضور بعد عصر مسجد میں حسب معمول بیٹھے تو مولوی صاحب موصوف بھی موجود تھے۔ حضورؑ منشی صاحب کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا وہ رات والے علماء انہیں دکھلا بھی تو دو۔ اس وقت حضور نے مولانا عبدالکریم صاحب کو بھی رات کا واقعہ سنایا وہ بھی ہنسنے لگے حضرت منشی صاحب نے محمد چراغ اور معین الدین کو بلا کر مولوی صاحب موصوف کے سامنے کھڑا کردیا وہ مولوی صاحب ان دونوں ’’علماء ‘‘ کو دیکھ کر چلے گئے اور ایک بڑے تھال میں شیرینی لے آئے اور اپنے بارہ ساتھیوں سمیت حضور کے دست مبارک پر بیعت کرلی۔

سرور کونین ﷺ کی شان اقدس میں قصیدہ مدحیہ :

’’ التبلیغ‘‘ کے آخر میں حضرت مسیح موعودؑ نے آنحضرت ﷺ کی شان اقدس میں ایک معجزہ نما عربی قصیدہ بھی رقم فرمایا جو چودہ سو سال کے اسلامی لڑیچر میں آپ ہی اپنی نظیر ہے۔ جب حضور یہ قصیدہ لکھ چکے تو آپؑ کا روئے مبارک فرط مسرت سے چمک اٹھا اور آپ نے فرمایا یہ قصیدہ جناب الٰہی میں قبول ہوگیا اور خدا تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا کہ جو شخص یہ قصیدہ حفظ کرلے گا اور ہمیشہ پڑھے گا میں اس کے دل میں اپنی اور اپنے رسول (آنحضرت ؐ) کی محبت کوٹ کوٹ کر بھردوں گا۔ اور اپنا قرب عطا کروں گا۔ السید محمد سعیدی شامی کو جب یہ قصیدہ دکھایا گیا تو وہ پڑھ کر بے اختیار رونے لگے اور کہا۔ خدا کی قسم میں نے اس زمانہ کے عربوں کے اشعار بھی کبھی پسند نہیں کئے مگر ان اشعار کو میں حفظ کروں گا۔

مولانا نیاز محمد خاں نیاز فتحپوری نے اس قصیدے کے متعلق لکھا ہےکہ  ’’اب سے تقریباً ۶۵ سال قبل ۱۸۹۳ء کی بات ہے۔ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے دعویٰ تجدید ومہددیت سے ملک کی فضا گونج رہی تھی۔ اور مخالفت کا ایک طوفان ان کے خلاف برپاتھا۔ آریہ عیسائی اور مسلم علماء سبھی ان کے مخالف تھے اوروہ تن تنہا ان تمام حریفوں کا مقابلہ کر رہے تھے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب انہوں نے مخالفین کو ’’ھل من مبارز‘‘ کے متعدد چیلنج دئیے اور ان میں سے کوئی سامنے نہ آیا۔ ان پر منجملہ اور اتہامات میں سے ایک اتہام یہ بھی تھا کہ وہ عربی وفارسی سے نابلد ہیں اسی اتہام کی تردید میں انہوں نے یہ قصیدہ نعت عربی میں لکھ کر مخالفین کو اس کا جواب لکھنے کی دعوت دی لیکن ان میں سے کوئی بروئے کار نہ آیا۔

مرزا صاحب کایہ مشہور قصیدہ۶۹ اشعار پر مشتمل ہے اپنے تمام لسانی محاسن کے لحاظ سے ایسی عجیب وغریب چیز ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا۔ ایک ایسا شخص جس نے کسی مدرسہ میں زانوئے ادب تہہ نہ کیا تھا کیوں کر ایسا فصیح وبلیغ قصیدہ لکھنے پر قادر ہوگیا۔ اسی زمانہ میں ان کے مخالفین یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ان کی عربی زبان کی شاعری غالباًان کے مرید خاص مولوی نورالدین کی ممنون کرم ہے لیکن اس الزام کی لغویت اسی سے ظاہر ہے کہ مولوی نورالدین خود مرزا صاحب کے بڑے معتقد تھے اور اگر مرزا صاحب کے عربی قصائد وغیرہ انہی کی تصنیف ہوتے تو مرزا صاحب کے اس کذب ودروغ پر کہ یہ سب کچھ خود انہی کی فکر کا نتیجہ ہے سب سے پہلے مولوی نور الدین ہی معترض ہو کر اس جماعت سے علیحدہ ہو جاتے۔ حالانکہ مرزا صاحب کے بعد وہی خلافت کے مستحق قرار دئیے گئے… یہ قصیدہ نہ صرف اپنی لسانی وفنی خصوصیات بلکہ اس والہانہ محبت کے لحاظ سے جو مرزا صاحب کو رسول اللہ سے تھی بڑی پر اثر چیز ہے‘‘

فارسی نعت :۔ اس عربی قصیدہ کے علاوہ جو ’’ التبلیغ ‘‘ میں شامل تھا حضرت اقدسؑ نے ’’ آئینہ کمالات اسلام ‘‘ میں ایک بلند پایہ فارسی نعت بھی رقم فرمائی اس نعت کا مطلع یہ ہے۔

عجب نوریست در جان محمد

عجب لعلیست در کان محمد

یہی وہ نعت ہے جس کے ایک شعر سے متعلق جماعت احمدیہ کا ایک شد ید مخالف اخبار ’’ آزاد ‘‘ بھی یہ رائے قائم کرنے پر مجبور ہوگیا کہ آنحضرتﷺ کی تعریف و توصیف میں گزشتہ انبیاء و مرسلین سے لے کر صلحائے امت تک نے بہت کچھ کہا ہے مگر حقیقی تعریف اسی شعر میں بیان کی گئی ہے کہ۔

 اگر خواہی دلیلے عاشقش باش

محمد ہست برہان محمد

(تاریخ احمدیت جلداوّل صفحہ 472تا 475۔ ملخص)

اللہ تعالیٰ ہمیں خدائی تائیدات سے لکھے ان خزائن روحانیہ سے بھرپور مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)