اللہ کی اپنے بندوں سے محبت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ “ يَقُولُ اللَّهُ إِذَا أَرَادَ عَبْدِي أَنْ يَعْمَلَ سَيِّئَةً فَلاَ تَكْتُبُوهَا عَلَيْهِ حَتَّى يَعْمَلَهَا، فَإِنْ عَمِلَهَا
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ “ يَقُولُ اللَّهُ إِذَا أَرَادَ عَبْدِي أَنْ يَعْمَلَ سَيِّئَةً فَلاَ تَكْتُبُوهَا عَلَيْهِ حَتَّى يَعْمَلَهَا، فَإِنْ عَمِلَهَا
حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)
سیدنا حضرت محمد مصطفیٰﷺ فرماتے ہیں:جو کسی نیک کام اور ہدایت کی طرف بلاتا ہے اس کو اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا کہ ثواب اس پر عمل کرنے والے کو ملتا ہے اور اس کے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہیں ہوتا۔
حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن ربیع کی بیوی اپنی دونوں بیٹیوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! یہ دونوں سعد بن ربیعؓ کی بیٹیاں ہیں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہید ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے لیا ہے اور ان کے لیے مال نہیں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھی نہیں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں فیصلہ فرمائے گا۔ اس پر میراث کے احکام پر مشتمل آیت نازل ہوئی۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوایا اور فرمایا کہ سعد کی بیٹیوں کو سعد کے مال کا تیسرا حصہ دو اور ان دونوں کی والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے (سنن الترمذی، کتاب الفرائض، باب ما جاء فی میراث البنات)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے بہت ناز اٹھاتے تھے۔ ایک دفعہ ان سے فرمانے لگے کہ عائشہ رضی اللہ عنھا میں تمہاری ناراضگی اور خوشی کو خوب پہچانتا ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے عرض کیا وہ کیسے؟ فرمایا جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو اپنی گفتگو میں رب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر قسم کھاتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو تو رب ابراہیم علیہ السلام کہہ کر بات کرتی ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ تو ٹھیک ہے مگر بس میں صرف زبان سے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام چھیڑتی ہوں۔ (خلاصہ ازبخاری، کتاب النکاح باب غیرۃ النساء و وجد ھن)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم دوسروں کی دیکھا دیکھی ایسے نہ کہو کہ لوگ ہم سے حسن سلوک کریں گے تو ہم بھی ان سے حسن سلوک کریں گے اور اگر انہوں نے ہم پہ ظلم کیا تو ہم بھی ان پر ظلم کریں گے بلکہ تم اپنے نفس کی تربیت اس طرح کرو کہ اگر لوگ تم سے حسن سلوک کریں تو تم ان سے احسان کا معاملہ کرو۔ اور اگر وہ تم سے بدسلوکی کریں تو بھی تم ظلم سے کام نہ لو۔ (ترمذی، کتاب البروالصلۃ والادب باب ماجاء فی الاحسان والعفو)
سیدنا حضرت محمد مصطفیٰﷺ فرماتے ہیں: جو تھوڑے پر شکر نہیں کرتا وہ زیادہ پر بھی شکر نہیں کرتا۔ جو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔ (مسند احمد بن حنبل۔ کتاب اول مسند الکوفیین حدیث18449) ایک موقعہ پر آپﷺ نے فرمایا کہ اے انصار کی جماعت! اللہ تعالیٰ نے طہارت اور صفائی سُتھرائی کے بارے میں تمہاری تعریف کی ہے۔ پس تمہاری طہارت کیا ہے؟ انصار نے عرض کی کہ ہم نماز کے لئے وضوء کرتے ہیں، غسل جنابت بھی کرتے ہیں اور پانی سے استنجا کرتے ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا یہی وہ چیز ہے پس تم اس کو لازم پکڑے رہو۔ (سنن ابن ماجہ۔ کتاب الطھارۃ و سننھا الاستنجاء بالماء)
حضرت کعبؓ بن عجرہؓ بیان فرماتے ہیں : ہم لوگوں نے)ایک دفعہ( حضرت رسول کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ لوگوں یعنی آپ کے گھر کے ساتھ تعلق رکھنے والے تمام لوگوں پر درود کس طرح بھیجا کریں۔ سلام بھیجنے کا طریق تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتا دیا ہے )مگر درود بھیجنے کا طریق ہم نہیں جانتے(۔ آپؐ نے فرمایا یوں کہا کرو۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰٓ اِبْرَاہِیْمَ وَ عَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی
آنحضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے۔ نرمی کو پسند کرتا ہے۔ نرمی کا جتنا اجر دیتا ہے اُتنا سخت گیری کا نہیں دیتا بلکہ کسی اور نیکی کا بھی اتنا اجر نہیں دیتا۔ (مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب فضل الرفق حدیث نمبر 6601) ایک اور مقام پر فرمایا :جو نرمی سے محروم رہا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا۔ (مسلم، ص 1072، حدیث6598)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم میں سے جس کے لئے باب الدعا کھولا گیا گویا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دئیے گئے۔ اور اللہ تعالیٰ سے جو چیزیں مانگی جاتی ہیں ان میں سے سب سے زیادہ محبوب اس کے نزدیک یہ ہے کہ اس سے عافیت طلب کی جائے۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دعا ایسے ابتلاؤں میں بھی مفید ہے جو نازل ہو چکے ہوں یا ابھی تک نازل نہیں ہوئے۔ پس اے اللہ کے بندو تمہیں چاہئے کہ تم دعا میں لگے رہو۔ (سنن الترمذی۔ ابواب الدعوات۔ باب نمبر102)