خلافت سے وابستگی میں ہی تمام برکات ہیں

عثمان احمد متعلم جامعہ احمدیہ قادیان

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِہٖ وَاَنَّہٗٓ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ

(سورۃ الانفال:۲۵)

ترجمہ:اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہا کرو جب وہ تمہیں بلائے تاکہ وہ تمہیں زندہ کرے اور جان لو کہ اللہ انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوتا ہے اور یہ بھی (جان لو) کہ تم اسی کی طرف اکھٹے کئے جاؤ گے۔

خلیفہ نبی کا جانشین ہوتا ہے اور اس حوالے سے خلیفہ کا مقام بہت بلند ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی شخص کو مقامِ خلافت سے نوازتا ہے تو وہی انسان جو کل تک لوگوں کی نظروں میں ایک عام انسان تھا، خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک ایسا روشن وجود بن جاتا ہے جس سے ساری دنیا میں خدا تعالیٰ کا نور پھیلنے لگتا ہے۔ اس بلند مقام کے عطا ہونے کے باعث خلیفہ کو اللہ تعالیٰ کا ایک خاص قُرب حاصل ہوتا ہے۔ اُسے خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت عطاہوتی ہے اور قبولیت ِدعا کا اعجاز ملتا ہے۔

خلیفۂ وقت کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے نور،علم ومعرفت اور مقام ِقبولیت دعا سے برکت حاصل کرنے کے لیے مومن مرد اور مومن عورتوں کی ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ خلیفہ وقت کے ساتھ محبت و عقیدت کا ایک ذاتی اور قریبی تعلق رکھیں۔ اُس کی محبت میں ایسے فدا ہو جائیں کہ دنیا کا ہر رشتہ،ہر نعمت کم تر نظر آئے۔ اُس کی ہر آواز پر لبیک کہنے والے ہوں اور اُس کی اطاعت کے جذبے میں سرشار ہوکر وہ مثالیں قائم کرنے کی کوشش کریں جو صحابہ رضوان اللہ علیہم نے آنحضور ﷺکی محبت و عقیدت اور وفا اور اطاعت میں قائم کیں۔ تبھی ہم حقیقی معنوں میں اولین سے ملائے جانے والے ہوںگے۔ رسول کریم ﷺجب بھی صحابہ رضوان اللہ علیہم کو کسی بات کا حکم دیتے صحابہؓ اسی وقت اس پر عمل کے لیے کھڑے ہوجاتے تھےکیونکہ صحابہ کرامؓ میں ا طاعت کی روح کمال تک پہنچی ہوئی تھی۔

چنانچہ حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مورخہ ۱۱ مئی ۲۰۰۳ کو احباب جماعت کے نام محبت بھرا خصوصی پیغام میں فرماتے ہیں:

’’قدرت ثانیہ خدا کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے جس کا مقصد قوم کو متحد کرنا اور تفرقہ سے محفوظ رکھناہے۔ یہ وہ لڑی ہے جس میں جماعت موتیوں کی مانند پروئی ہوئی ہے۔ اگر موتی بکھرے ہوں تو نہ تو محفوظ ہوتے ہیں اور نہ ہی خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔ ایک لڑی میں پروئے ہوئے موتی ہی خوبصورت اور محفوظ ہوتے ہیں۔ اگر قدرتِ ثانیہ نہ ہوتو دین حق کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ پس اس قدرت کے ساتھ کامل اخلاص اورمحبت اور وفا اورعقیدت کا تعلق رکھیں اورخلافت کی ا طاعت کے جذبہ کودائمی بنائیں اور اس کے ساتھ محبت کے جذبہ کو اس قدر بڑھائیں کہ اس محبت کے بالمقابل دوسرے تمام رشتے کمتر نظر آئیں۔ امام سے وابستگی میں ہی سب برکتیں ہیں اوروہی آپ کے لئے ہر قسم کے فتنوں اورابتلاؤں کے مقابلہ کے لئے ایک ڈھال ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی ا للہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:’’جس طرح وہی شاخ پھل لاسکتی ہے جو درخت کے ساتھ ہو۔ وہ کٹی ہوئی شاخ پھل پیدا نہیں کر سکتی جو درخت سے جدا ہو۔ اس طرح وہی شخص سلسلہ کا مفید کام کرسکتاہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتاہے۔ اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے توخواہ وہ دنیا بھرکے علوم جانتاہو وہ اتنا بھی کام نہیں کر سکے گا جتنا بکری کا بکروٹا ‘‘۔

’’پس اگر آ پ نے ترقی کرنی ہے اور دنیا پر غالب آناہے تومیر ی آپ کو یہی نصیحت ہے اور میرا یہی پیغام ہے کہ آپ خلافت سے وابستہ ہو جائیں۔ اس حبل اللہ کومضبوطی سے تھامے رکھیں۔ ہماری ساری ترقیات کا دارومدار خلافت سے وابستگی میں ہی پنہاں ہے۔ ‘‘

خلافت سے صحیح معنوں میں وابستگی تبھی ہو سکتی ہے جب خلیفہ وقت کی کامل پیروی اور اطاعت کی جائے اور اس کی ہر آواز پر لبیک کہے۔ اطاعت کے مفہوم کو سمجھنے کے لئے ایمان کے اصطلاحی معنوں کاسمجھنا ضروری ہے۔ ایمان نام ہے بعض خلافِ طبیعت باتیں ماننے اور بعض خلاف طبیعت باتیں چھوڑنے کا۔ ایمان کی اسی تعریف کے تناظر میں حضرت مصلح موعودؓ نے اطاعت کی تعریف میں لکھا ہے کہ

’’اطاعت صرف ذوق کے مطابق احکام پر عمل کرنے کا نام نہیں بلکہ خداتعالیٰ کے ہر حکم پر عمل کرنے کا نام ہے خواہ وہ کسی کی عادت یا مزاج کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ ‘‘      (تفسیرکبیر جلد2 صفحہ15)

اطاعت بہت وسیع لفظ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سو کے قریب آیات میں مختلف انداز میں اطاعت کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اس کی برکات کا ذکر کیاہے۔ اطاعت کرنے والوں کو بشارتیں دی ہیں جبکہ اطاعت کا جوا اپنی گردن سے اتارنے والوں کو انذار کیاہے۔

خلافت خامسہ کے انتخاب پر دربارِ خلافت سے ایک عہدیدار کی زبانی یہ اعلان ہوا کہ حضور فرماتے ہیں کہ بیٹھ جائیں تو جو نقشہ اطاعت اورفرمانبرداری کا گریسن ہال روڈ پر بیٹھنے کاایم ٹی اے نے تا قیامت محفوظ کر لیاہے۔ اسے دیکھ کر آنحضور ﷺ کے دور کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔

حضرت عبادہ بن صامتؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت رسول اللہ ﷺ کی بیعت اس شرط پر کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔ آسانی میں بھی اور تنگی میں بھی، خوشی میں بھی اور رنج میں بھی اور ہم اُولو الامرسے نہیں جھگڑ یں گے اور جہاں کہیں بھی ہم ہوں گے حق پر قائم رہیں گے اور کسی ملامت کرنے والے سے نہیں ڈریں گے۔

(مسلم کتاب الامارۃ، باب و جوب طاعۃ الامراء)

اطاعت اور نظام جماعت و نظام خلافت کے اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کی مثال دی ہے کہ کس طرح ایک نظام کے تحت مکھیاں ملکہ کی اطاعت کر رہی ہوتی ہیں اور پھر اس کی اطاعت کے نتیجہ میں ایک ایسی غذا یعنی شہد تیار ہوتا ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ فِیْہِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ۔ اس طرح جماعت میں رہتے ہوئے ایک خلیفہ کی اطاعت میں صحت مند مقوی غذا فتوحات اور ترقیات کی صورت میں ملتی ہے اور جماعت کو مل رہی ہے کیونکہ اطاعت، اطاعت اور اطاعت ہی ہمارا پہلا سبق ہے اور پورا طرہ امتیاز ہے۔ دیکھیں جنگ خندق کی کھدوائی کے وقت جب درمیان میں چٹان آئی تو بعض صحابہ نے کہا کہ چند قدم ہٹ کر یہ خندق کھودی جائےمگر حضرت سلمان فارسی بضد رہے کہ جو لکیر خندق کھودنے کے لئے میرے آقا حضرت محمد ﷺ نے لگائی ہے۔ میں تو اس سے ایک قدم بھی نہیں ہٹوں گا۔ اتنے میں آنحضور ﷺ تشریف لائے آپ نے کدال پکڑی اور زور سے ضربیں لگائیں کہ چٹان بھی ٹوٹی اور قیصرو کسریٰ کے بادشاہوں کی تباہی کی خبر یں دیں۔ آج اس زمانہ کے مامور حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ السلام بھی فارسی النسل ہیں۔ سلمان فارسی کی نسل سے ہیں اور ہم ان کے روحانی فرزند ہیں ہم پر لازم ہے کہ اس خط کے نقوش کو جو تعلیمات و ارشادات حضرت محمد ﷺ کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہیں کو گہرے کرتے چلیں۔ جس حد تک حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات کو ہم دلوں میں اتاریں گے ان کے نقوش کو گہرا کریں گے۔ اسی قدر خدا تعالیٰ کا قرب بھی ملے گا اور فتوحات بھی ملیں گی۔ ہمارے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے خطبات میں آئندہ بہت بڑی فتوحات، بشارات اور خوشخبریاں دے رہے ہیں۔ پس ان فتوحات کو قریب تر لانے اور دیکھنے کےلئے اس کے رسول کی اطاعت اور نظام جماعت کا لازم پکڑنا ہوتا اور اپنی نسلوں کو باور کرنا ہوگا کہ ہر قسم کی ترقی اطاعت رسول اور اس کے نمائندہ کی اطاعت سے نہ صرف وابستہ کر دی گئی ہے۔ بلکہ تمام عہدیداران کی اطاعت اور ان کا احترام جس حد تک بڑھے گا۔ خداتعالیٰ کی محبت بھی بڑھتی جائے گی۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ:

’’اگر ایک امام اور خلیفہ کی موجودگی میں انسان یہ سمجھے کہ ہمارے لیے کسی آزاد تدبیر اور مظاہرہ کی ضرورت ہے تو پھر خلیفہ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ امام اور خلیفہ کی ضرورت یہی ہے کہ ہر قدم جو مومن اْٹھاتا ہے اْس کے پیچھے اْٹھاتا ہے اپنی مرضی اور خواہشات کو اس کی مرضی اور خواہشات کے تابع کرتا ہے اپنی تدبیروں کو اس کی تدبیروں کے تابع کرتا ہے اپنے ارادوں کو اس کے ارادوں کے تابع کرتا ہے اپنی آرزوؤں کو اْ س کی آرزوؤں کے تابع کرتا ہے اور اپنے سامانوں کو اس کے سامانوں کے تابع کر تا ہے۔ اگر اس مقام پر مومن کھڑے ہو جائیں تو ان کے لیے کامیابی اور فتح یقینی ہے۔ ‘‘

(الفضل4؍ستمبر1937ءصفحہ3تا4)

آج جب ہم دنیا کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہر طرف بے چینی،بد امنی اور بے سکونی نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ لوگ امام الزمان حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا انکار کر کے خلافت جیسی قیمتی نعمت ِعظمیٰ سے محروم ہیں۔ یہ حبل اللہ جسے تھام کر جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کے نظارے دیکھ رہی ہے وہ خلافت کی نعمت ہے۔

ہمارے پاس آج ایک ایسا بابرکت اور پیار کرنے والا وجودہے جو ہماری تکلیف پر بے چین ہونے والا ہے،کوئی ہے جس کے پاس ہم چھوٹی چھوٹی بات لے کر دعا کے لیے بھاگے چلے جاتے ہیں۔ کوئی ہماری فکر کرتا ہے،ہمارے درد سے اْسے درد ہوتا ہے اور ہماری خوشی میں وہ خوش ہوتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ چونکہ خلیفہ خود خدا تعالیٰ کا مقرب ہوتا ہے اس لیے وہ ہمارے اور خدا تعالیٰ کے بیچ قربت کا ایک واسطہ ہوتا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا ایک ارشاد ہے جو آپ کی قلبی کیفیت کا اظہار بہت ہی پیارے رنگ میں کرتا ہے آپ فرماتے ہیں:

’’میں آپ میں سے آپ کی طرح کا ہی ایک انسان ہوں اور آپ میں سے ہر ایک کے لیے اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اتنا پیار پیدا کیا ہے کہ آپ لوگ اس کا اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔ بعض دفعہ سجدہ میں میں جماعت کے لیے اور جماعت کے افراد کے لیے یوں دعا کرتا ہوں کہ اے خدا! جو مجھے خط لکھنا چاہتے تھے لیکن کسی سستی کی وجہ سے نہیں لکھ سکے ان کی مرادیں پوری کردے۔ اور اے خدا! جنہوں نے مجھے خط نہیں لکھا اور نہ اْنہیں خیال آیا ہے کہ دعا کے لیے خط لکھیں اگر انہیں کوئی تکلیف ہے یا اْن کی کوئی حاجت اور ضرورت ہے تو ان کی تکلیف کو بھی دور کردے اور حاجتیں بھی پوری کردے۔ ‘‘(روزنامہ الفضل ربوہ21؍ دسمبر1966ءصفحہ5)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓکے زمانہ کا واقعہ ہے چوہدری حاکم دین صاحب بورڈنگ کے ایک ملازم تھے۔ ان کی بیوی پہلے بچے کی ولادت کے وقت بہت تکلیف میں تھیں۔ رات کے بارہ بجے وہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓکے دروازے پر گئے اور دستک دی۔ اجازت ملنے پر اندر گئے اور اپنی بیوی کی تکلیف کا ذکر کیا اور دعا کی درخواست کی۔ حضورؓ فوراً اُٹھے،اندر جاکر ایک کھجور لیکر آئے اور اْ س پر دعا کر کے اْنہیں دی اور فرمایا:

’’یہ اپنی بیوی کو کھلادیں اور جب بچہ ہو جائے تو مجھے بھی اطلاع دیں۔ ‘‘

چوہدری حاکم دین صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں واپس آیا،کھجور بیوی کو کھلادی اور تھوڑی ہی دیر میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچی کی ولادت ہوئی۔ رات بہت دیر ہوچکی تھی،میں نے خیا ل کیا کہ اتنی رات گئے دوبارہ حضور ؓ کو اس اطلاع کےلیے جگانا مناسب نہیں۔ نماز فجر میں حاضر ہوکر میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کھجور کھلانے کے بعد جلد بچی پیدا ہوگئی تھی۔ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓنے جو فرمایا وہ سننے اور یاد رکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ آپؓ نے فرمایا:

’’میاں حاکم دین ! تم نے اپنی بیوی کو کھجور کھلادی اور تمہاری بچی پیدا ہوگئی۔ اور پھر تم اور تمہاری بیوی آرام سے سوگئے۔ مجھے بھی اطلاع کردیتے تو میں بھی آرام سے سو رہتا۔ میں تو ساری رات جاگتا رہا اور تمہاری بیوی کے لیے دعا کرتا رہا۔ ‘‘

چوہدری حاکم دین صاحب نے واقعہ بیان کیا اور بےاختیار رو پڑے اور کہنے لگے۔ ’’ کہاں چپڑاسی حاکم دین اور کہاں نورالدین عظیم۔ ‘‘

(اصحاب احمد جلد 8صفحہ71تا 72)

حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں:’’تمہارے لیے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا، تمہاری محبت رکھنے والا، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا، تمہارے لیے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا۔ مگر ان کے لیے نہیں ہے۔ تمہارا اسے فکر ہے، درد ہے اور وہ تمہارے لیے اپنے مولیٰ کے حضور تڑپتا رہتا ہے لیکن ان کے لیے ایسا کوئی نہیں ہے۔ کسی کا اگر ایک بیمار ہو تو اس کو چین نہیں آتا۔ لیکن کیا تم ایسے انسان کی حالت کا اندازہ کرسکتے ہو جس کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بیمار ہوں۔ ‘‘(برکات خلافت، انوار العلوم جلد 2صفحہ156)

آج بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک بابرکت وجود حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صورت میں موجود ہے۔ خلیفۂ وقت کی محبت وشفقت اور دعائیں ہمارے لیے ایک ایسا خزانہ ہیں جس کی مالیت اور اہمیت کا احاطہ کرنا ناممکن ہے اور ہمارا سر ساری عمر بھی خدا تعالیٰ کے حضور اس نعمت کے شکرانے کے لیے جھکا رہے تب بھی ہم شاید شکر ادا نہیں کرسکتے۔ مگر اس نعمت پر شکر کا اظہار ضرور کرنا چاہیےااور اس کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔

اس کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ ہم خلیفۂ وقت کے لیے لازمی طور پر باقائدہ دعائیں کرتے رہیں۔ خدا تعالیٰ کے حضور رو رو کر یہ دعائیں مانگیں کہ اے اللہ توہمارے خلیفہ کو اپنی حفظ وامان میں رکھ۔ جیسے وہ ہمارے درد میں تڑپتا ہے اور ہمارے لیے دعائیں کرتا ہے ہمیں بھی دعاؤں کے ذریعےاُس کا مددگار بنا۔ ہمیں خلافت کے سلطانِ نصیر بنااور خلافت کے ساتھ ہمیشہ جوڑے رکھ آمین۔

پھر آپؓ فرماتے ہیں:’’تم سب امام کے اشارے پر چلو اور اس کی ہدایات سے ذرہ بھر بھی ادھر اْدھر نہ ہو۔ جب وہ حکم دے بڑھو اور جب وہ حکم دے بیٹھ جاؤ۔ اور جدھر بڑھنے کا وہ حکم دے اْدھربڑھو اور جدھر سے ہٹنے کا وہ حکم دے ادھر سے ہٹ جاؤ۔ ‘‘(انوار العلوم جلد 14صفحہ515تا516)

ایک خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:’’ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہیے کہ…خلافت کے لیے دعائیں کریں تاکہ خلافت کی برکات آپ میں ہمیشہ قائم رہیں…اپنے اند ر خاص تبدیلیاں پیدا کریں۔ پہلے سے بڑھ کر ایمان و اخلاص میں ترقی کریں…اب احمدیت کا علمبردار وہی ہے جو نیک اعمال کرنے والا ہے اور خلافت سے چمٹا رہنے والا ہے۔ ‘‘      (خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍مئی2005ء)

صد سالہ خلافت جوبلی کے موقع پر ہم نے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے ساتھ عہد ِوفائے خلافت دہرایا۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا کہ

’’آج مَیں …صد سالہ جوبلی کے حوالے سے آپ سے بھی یہ عہد لیتا ہوں تاکہ ہمارے عمل زمانے کی دوری کے باوجود ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم اور اللہ کے حکموں اور اُسوہ سے دور لے جانے والے نہ ہوں بلکہ ہر دن ہمیں اللہ تعالیٰ کے وعدے کی قدر کرنے والا بنائے۔ ‘‘

(خطاب بر موقع خلافت صد سالہ جوبلی 27؍مئی2008ء)

صد سالہ خلافت جوبلی کے موقع پر عہد خلافت کرتے ہوئے ہم نے یہ الفاظ بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ دہرائے۔

’’ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور استحکام کےلیےآخری دم تک جدوجہد کرتے رہیں گے۔ اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنےاور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تاکہ قیامت تک خلافت احمدیہ محفوظ چلی جائے۔ ‘‘

اللہ کرے کہ ہر احمدی مرد و عورت اس عہد کو پورا کرنے والا ہو۔ خلافت سے وفا و محبت میں اعلیٰ درجہ کے معیار قائم کرنے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ خلافت سے وابستہ رکھے اور اپنے پیاروں کاپیار عطا فرماتا چلا جائے۔ آمین ثمّ آمین۔

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)