حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے خداملتاہے

حافظ سید رسول نیازمربی سلسلہ نظارت نشر و اشاعت قادیان

خداتعالیٰ نے انسان کو پیداکرکے خیراورشرّ کا  اختیاردیکر اُسے بےیارومددگار نہیں چھوڑابلکہ انسان کی رہنمائی اورہدایت کیلئے انبیاء کو مبعوث کرتارہااور شریعتوں کو نازل فرتارہاہے۔ تاکہ واضح رنگ میں انسان کو نصیحت کی جاسکے۔برائی کے انجام سے تنبیہ کی جاسکے اور نیکی کے اجرعظیم کی بشارت دی جاسکے۔بعثتِ انبیاء کے مقصد کا ذکرکرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے۔

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ فَمِنْهُمْ مَّنْ هَدَی اللّٰهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلٰلَةُ فَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِيْنَ (النحل:36)

 یعنی اور ہم نے یقیناً ہر قوم میں (کوئی نہ کوئی) رسول (یہ حکم دے کر) بھیجا ہے‘ کہ (اے لوگو)! تم اللہ کی عبادت کرو۔ اور ہر حد سے بڑھنے والے سے کنارہ کش رہو اس پر ان میں سے بعض (تو) ایسے (اچھے ثابت) ہوئے کہ انہیں اللہ نے ہدایت دی اور بعض ایسے کہ ان پر ہلاکت واجب ہو گئی۔ پس تم (تمام) ملک میں پھرو اور دیکھو کہ (انبیاء کو) جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا تھا۔

چنانچہ جب ہم تاریخ انبیاء کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں بخوبی علم ہوگاکہ ہرنبی نے اپنے دورکی مناسبت سے تبلیغ،تربیت اورتعلیم کیلئےمختلف ذرائع کا استعمال کیاہے۔ اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء کے ذریعہ اپنی شریعت مبعوث کی اور بعض کو ان سے قبل شریعت کی تعلیم پھیلانے کا حکم دیا۔یہی وجہ ہے کہ بعض انبیاء کو حق کے مخالفین کے ساتھ مادی جنگیں کرنے کی ضرورت پڑنے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جہاد بالسیف کی اجازت ملی اور بعض انبیاء کو پیارومحبت سے پیغام پہنچانے کاحکم ملا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو قتال کا حکم ہوا۔لیکن موسوی سلسلہ کے آخری نبی اورخلیفہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نرمی اورملاطفت کے ساتھ پیغام حق پہنچانے کی ہدایت ملی۔اسی طرح ہمارے پیارے آقاسیدناحضرت اقدس محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کی خاطر عدوّان اسلام سے جنگ کرنی پڑی۔

لیکن قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں سے ظاہرہوتاہے کہ آخری زمانہ میں مبعوث ہونے والے حضرت امام مہدی علیہ السلام کو جنگ کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔انہیں پیارومحبت سے ہی پیغام پہنچاناہوگا۔یعنی اس زمانہ میں اشاعت کے کثیر وسائل مہیا ہوںگے۔اسی لئے اسلام کی کامل اشاعت اور ادیان باطلہ پر مکمل غلبہ کو مسیح موعودکے زمانہ میں مقدر کیاگیاہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔

وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ (التکویر:11) یعنی اور جب کتابیں پھیلا دی جائیں گی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے ایک پیغام میں فرماتے ہیں۔

’’قرآن کریم اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات مبارکہ سے واضح ہوتاہے کہ یہی وہ زمانہ تھاکہ جب اسلام کی اشاعت اورتبلیغ ساری دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے سامان اس خدائے قادر مطلق نے پہلے سے مقررکررکھے ہیں۔اسی لئے اس زمانہ میں سائنسی ایجادات اتنی تیزی اور کثرت سے ہوئی ہیں کہ انسانی عقل وقال الانسان مالھا کے مصداق حیران ہوجاتی ہے۔یہی وہ زمانہ ہے کہ جس کے بارے میںوَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ کی پیشگوئی فرماکر یہ بتلایاگیا کہ اس زمانے میں ایسی ایسی ایجادات ہوں گی کہ کتابوں اوررسالوں کی نشرواشاعت عام ہوجائے گی۔‘‘

(پیغام برموقع اشاعت کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن روحانی خزائن 2008ء)

اسی لئے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے بارے میں بتایاگیا کہ وہ قلمی جہاد سرانجام دیں گے۔سیدناحضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام مہدی کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا۔

یَضَعُ الْحَرْبَ وَیُفِیْضُ الْمَالَ لَایَقْبَلَہٗ اَحَدٌ۔

(بخاری۔ کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ ابن مریم)

یعنی وہ لڑائی کو ختم کریگا۔وہ اس قدر مال لٹائیگا، کہ کوئی اُس کو قبول نہ کرے گا۔

ایک اورموقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

’’اس کے زمانہ میں جنگ اپنے ہتھیار رکھ دے گی۔‘‘

(الدر المنثور فی التفسیر بالماثور از امام جلال الدین سیوطی۔ دارالمعرفۃ بیروت لبنان)

اس سے ظاہرہے کہ جب حضرت امام مہدی و مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوں گے تو وہ اس قدر مال لٹائیں گے کہ لوگ اسے لینے سے ہی منکر ہو جائیں گے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے مبعوث ہو کر وہ روحانی خزائن لٹائے کہ جن کی نظیر لانا جوئے شیرکے مترادف ہے۔حضرت مسیح موعودؑ نے خداتعالیٰ سے الہام پا کر جب مامورِ زمانہ ہونے کا اعلان فرمایا تو اس کے ساتھ ہی آپ نے قلمی جہاد کاآغاز فرمایا۔اور روحانی خزائن بانٹنے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا

وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے

اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار

چنانچہ آپ نے ہزاروں سال سے مدفون خزائن جب دنیاکے سامنے پیش کرنے شروع کئے تو ایک دنیا کی آنکھ حیرت و استعجاب سے خیرہ ہوگئی۔

خداتعالیٰ نے آپ کو’’سلطان القلم‘‘کے گراں بہا خطاب سے نوازا اور آپ کے قلم کو’’ذوالفقارِ علی‘‘فرمایا۔آپ کے قلم نے خدائی تائید سے ایسے جلوے دکھائے اور ایسا لٹریچر معرضِ وجود میں آیا کہ رہتی دنیا تک یادگار رہے گا۔اس لٹریچر کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں۔

’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ……وہ زندگی بخش باتیں جو میں کہتا ہوں اور وہ حکمت جو میرے منہ سے نکلتی ہے، اگر کوئی اور بھی اس کی مانند کہہ سکتا ہے تو سمجھو کہ میں خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں آیا۔لیکن اگر یہ حکمت اور معرفت جو مردہ دلوں کے لئے آب حیات کا حکم رکھتی ہے،دوسری جگہ سے نہیں مل سکتی توتمہارے پاس اس جرم کا کوئی عذر نہیں کہ تم نے اس سرچشمہ سے انکار کیا جو آسمان پر کھولا گیا زمین پر اس کو کوئی بند نہیں کرسکتا۔‘‘

(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد 3صفحہ104)

آپ نے یہ روحانی خزائن اس کثرت سے تقسیم کئے کہ دنیائے مذاہب میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔آپ کی کتب جو ’’روحانی خزائن‘‘کے نام سے شائع شدہ ہیں،کی تعداد90 کے قریب پہنچتی ہے۔آپ کے ملفوظات،مکتوبات اور مجموعہ ہائے اشتہارات اس پر مستزاد ہیں۔آپ نے کبھی کسی دینی مدرسہ سے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی اور نہ ہی کسی شاعر سے اصلاح لی۔ لیکن جب بھی آپ کو اپنے جذبات کی ترجمانی کی ضرورت پیش آئی،آپ نے اپنے خدادادعلم سے اردو،فارسی اور عربی میں بلا تکلف اور بلا تصنع طویل قصائد اور نظمیں تحریر فرمائیں جو ادب کی بلندیوں کو چھوتی ہیں۔آپ کا یہ کلام قیامت تک آپ کے منجانب اللہ ہونے کا ایک زندہ نشان ہے۔

یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تحریرات سے لوگوں کو خداتعالیٰ ملتاہے۔ اسی غرض کیلئے اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو عصرحاضرمیں مصلح آخرالزماں بناکر ناز ل فرمایاہے۔اس ضمن میں آپؑ فرماتے ہیں۔

’’انبیاء علیہم السلام کے دنیا میں آنے کی سب سے بڑی غرض اور ان کی تعلیم اور تبلیغ کا عظیم الشان مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کو شناخت کریں اور اس زندگی سے جو انہیں جہنم اور ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے اور جس کو گناہ آلود زندگی کہتے ہیں نجات پائیں۔ حقیقت میں یہی بڑا بھاری مقصد اُن کے آگے ہوتا ہے۔ پس اس وقت بھی جو خدا تعالیٰ نے ایک سِلسلہ قائم کیا ہے اور اُس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے تو میرے آنے کی غرض بھی وہی مشترک غرض ہے جو سب نبیوں کی تھی۔ یعنی مَیں بتانا چاہتا ہوں کہ خدا کیا ہے؟ بلکہ دکھانا چاہتا ہوں اور گناہ سے بچنے کی راہ کی طرف راہبری کرتا ہوں۔‘‘

(ملفوظات جلددوم صفحہ ۸،۹ ایڈیشن ۲۰۰۳ء)

ایک اور مقام پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تحریرفرماتے ہیں۔

’’مَیں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا ایمانوں کو قوی کروں اور خدا تعالیٰ کا وجود لوگوں پر ثابت کر کے دکھلائوں کیونکہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیں نہایت کمزور ہو گئی ہیں اور عالم آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے اور ہر ایک انسان اپنی عملی حالت سے بتا رہا ہے کہ وہ جیسا کہ یقین دنیا اور دنیا کی جاہ و مراتب پر رکھتا ہے اور جیسا کہ اُس کو بھروسہ دنیوی اسباب پر ہے یہ یقین اور یہ بھروسہ ہرگز اس کو خدا تعالیٰ اور عالم آخرت پر نہیں۔ زبانوں پر بہت کچھ ہے مگر دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے۔ حضرت مسیح نے اِسی حالت میں یہود کو پایا تھا۔ اور جیسا کہ ضعف ایمان کا خاصہ ہے یہود کی اخلاقی حالت بھی بہت خراب ہو گئی تھی اور خدا کی محبت ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ اب میرے زمانہ میں بھی یہی حالت ہے۔ سو میں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کازمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو۔ سو یہی افعال میرے وجود کی علّتِ غائی ہیں۔ مجھے بتلایا گیا ہے کہ پھر آسمان زمین سے نزدیک ہو گا بعد اس کے کہ بہت دُور ہو گیا تھا۔ سو مَیں ان ہی باتوں کا مجدّد ہوں اور یہی کام ہیں جن کے لئے مَیں بھیجا گیا ہوں۔‘‘

(کتاب البریہ۔ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۲۹۱ تا ۲۹۴ حاشیہ)

حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے امام مہدی کی پیشگوئی کے ضمن میں فرمایاہے کہ وہ ایمان کو ثریا ستارہ سے لائےگا۔جس کے معنے ہیں کہ وہ خداتعالیٰ پرایمان کو دوبارہ دنیامیں قائم کرے گا۔اورلوگوں کو خداتعالیٰ تک پہنچنے کا راستہ دوبارہ دکھائےگا۔ جیساکہ ہم جانتے ہیں اس زمانہ میں مسلمان قبولیت دعاسے منکر ہوچکے ہیں۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر زندہ رہنے کا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے سخت شرک میں مبتلا ہوچکے ہیں۔جب تک شرک سے مسلمان دورنہیں ہوںگے تب تک خداتعالیٰ نہیں ہوسکتا۔اس لئے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایاہے۔

’’وفات عیسیٰ اور حیات اسلام یہ دونوں مقاصد باہم بہت بڑا تعلق رکھتے ہیں اور وفات مسیح کا مسئلہ اس زمانہ میں حیات اسلام کے لیے ضروری ہو گیا ہے۔ اس لیے کہ حیاتِ مسیح سے جو فتنہ پیدا ہوا ہے وہ بہت بڑھ گیا ہے۔ حیات مسیح کے لیے یہ کہنا کہ کیا اﷲتعالیٰ اس بات پر قادر نہیں کہ ان کو زندہ آسمان پر اُٹھالے جاتا؟ اﷲ تعالیٰ کی قدرت اور اس سے ناواقفی کو ظاہر کرتاہے۔ ہم تو سب سے زیادہ اس بات پر ایمان لاتے اور یقین کرتے ہیں کہ إِنَّ اللهَ عَلَی كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ (البقرة 21) اﷲ تعالیٰ بیشک ہر بات پر قادر ہے۔ اور ہم ایمان رکھتے ہیں کہ بے شک وہ جو کچھ چاہے کر سکتا ہے لیکن وہ ایسے امور سے پاک اور منزّہ ہے جو اس کی صفات کاملہ کے خلاف ہوں اور وہ ان باتوں کا دشمن ہے جو اس کے دین کے مخالف ہوں۔ حضرت عیسیٰ کی حیات اوائل میں تو صرف ایک غلطی کا رنگ رکھتی تھی مگر آج یہ غلطی ایک اژدھا بن گئی ہے جو اسلام کو نگلنا چاہتی ہے۔ ابتدائی زمانہ میں اس غلطی سے کسی گزند کا اندیشہ نہ تھا اور وہ غلطی ہی کے رنگ میں تھی۔ مگر جب سے عیسائیت کا خروج ہوا اور انہوں نے مسیح کی زندگی کو ان کی خدائی کی ایک بڑی زبردست دلیل قرار دیا تو یہ خطرناک امر ہوگیا۔ انہوںنے بار بار اور بڑے زور سے اس امر کو پیش کیا کہ اگر مسیح خد انہیں تو وہ عرش پر کیسے بیٹھا ہے؟ اور اگر انسان ہو کر کوئی ایساکرسکتا ہے کہ زندہ آسمان پر چلا جاوے تو پھر کیا وجہ ہے کہ آدم سے لے کر اس وقت تک کوئی بھی آسمان پر نہیں گیا؟ اس قسم کے دلائل پیش کرکے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خد ابنانا چاہتے ہیں اور انہوںنے بنایا اور دنیا کے ایک حصہ کو گمراہ کر دیا اور بہت سے مسلمان جو تیس لاکھ سے زیادہ بتائے جاتے ہیں اس غلطی کو صحیح عقیدہ تسلیم کرنے کی وجہ سے اس فتنہ کا شکا رہو گئے۔‘‘

(احمدی اورغیر احمدی میں فرق، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 465تا466)

عقیدہ تثلیث کی وجہ سے توحیدباری تعالیٰ کو شدیدچوٹ پہنچتی ہے۔اس لئے اس عقیدہ کو دنیاکے سامنے پاش پاش کرکے لوگوں کو حقیقی توحید کی طرف دعوت دیناضروری تھا۔ تاکہ لوگوں کو حقیقی رب الوریٰ تک رسائی حاصل ہو۔اسی لئے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام عیسائی حضرات کو علامات ایمانی میں مقابلہ کرنے کی دعوت دیتےفرماتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیوں کو اپنے اپنے مذہب کی علامات ایمانی میں مقابلہ کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا۔

’’اگر ایمان کوئی واقعی برکت ہے تو بیشک اس کی نشانیاں ہونی چاہئیں مگر کہاں ہے کوئی ایسا عیسائی جس میں یسوع کی بیان کردہ نشانیاں پائی جاتی ہوں؟ پس یا تو انجیل جھوٹی ہے اور یا عیسائی جھوٹے ہیں۔ دیکھو قرآن کریم نے جو نشانیاں ایمانداروں کی بیان فرمائیں وہ ہر زمانہ میں پائی گئی ہیں۔ قرآن شریف فرماتا ہے کہ ایماندار کو الہام ملتا ہے۔ ایماندار خدا کی آواز سنتا ہے۔ ایماندار کی دعائیں سب سے زیادہ قبول ہوتی ہیں۔ ایماندار پر غیب کی خبریں ظاہر کی جاتی ہیں۔ ایماندار کی دعائیں سب سے زیادہ قبول ہوتی ہیں۔ ایماندار کے شامل حال آسمانی تائیدیں ہوتی ہیں۔ سو جیسا کہ پہلے زمانوں میں یہ نشانیاں پائی جاتی تھیں۔ اب بھی بدستور پائی جاتی ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن خدا کا پاک کلام ہے اور قرآن کے وعدے خدا کے وعدے ہیں- اٹھو عیسائیو! اگر کچھ طاقت ہے تو مجھ سے مقابلہ کرو اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھے بیشک ذبح کردو۔ ورنہ آپ لوگ خدا کے الزام کے نیچے ہیں۔ اور جہنم کی آگ پر آپ لوگوں کا قدم ہے۔‘‘(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب۔ روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۷۴)

اللہ تعالیٰ سے ملنے کیلئے لازمی ہے کہ انسان خداتعالیٰ کی عبادت بجا لائے اور اللہ تعالیٰ عظمت کو اپنے دل میں بٹھائے۔اس کیلئے نماز ایک اہم زینہ ہے۔اس طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔

’’ملازم لوگ تھوڑی سی نوکری کے لیے اپنے کام میں کیسے چست و چالاک ہوتے ہیںلیکن جب نماز کا وقت آتا ہے تو ذرا ٹھنڈا پانی دیکھ کر ہی رہ جاتے ہیں۔ ایسی باتیں کیوں پید اہوتی ہیں؟اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ کی عظمت دل میں نہیں ہوتی۔ اگر خدا تعالیٰ کی کچھ بھی عظمت ہو اور مرنے کا خیال اور یقین ہو تو ساری ُسستی اور غفلت جاتی رہے۔اس لیے خدا تعالیٰ کی عظمت کو دل میں رکھنا چاہیئے اور اس سے ہمیشہ ڈرنا چاہیئے۔‘‘

(احمدی اورغیر احمدی میں فرق۔روحانی خزائن جلد 20صفحہ483)

پس حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بعثت کا مقصد ہی مخلوق کو خالق حقیقی سے قریب کرناہے اور اللہ تعالیٰ اور اسکےبندوں کے درمیان جودوری واقع ہوگئی ہے اُسے ختم کرناہے۔آپؑ فرماتے ہیں۔

’’وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقعہ ہو گئی ہے اس کودُور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں اور وہ دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہو گئی ہیں ان کو ظاہر کر دوں اور وہ روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھائوں اور خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دعا کے ذریعہ سے نمودار ہوتی ہیںحال کے ذریعہ سے نہ محض مقال سے اُن کی کیفیت بیان کروں اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی توحید جو ہر ایک قسم کے شرک کی آمیزش سے خالی ہے جو اب نابود ہو چکی ہے اس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودا لگا دوں اور یہ سب کچھ میری قوت سے نہیں ہو گا بلکہ اس خدا کی طاقت سے ہو گا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے۔‘‘

(لیکچر لاہور۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۸۰)

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے موجودہ دورمیں پائے جانے والی تمام غلط عقائد کی تردیدکی اور دنیاکو چیلنج دیاکہ اسلام کا بتایاہواراستہ ہی ہے جس سے خداتعالیٰ تک انسان کی رسائی ممکن ہے۔اس ضمن میں آپ علیہ السلام فرماتے ہیں۔

تمام اہم مذاہب کو نشان نمائی کی دعوت :

 ’’مجھے اُس خدا کی قسم ہے جس نے مجھے بھیجا ہے کہ اگر کوئی سخت دل عیسائی یا ہندو یا آریہ میرے اُن گذشتہ نشانوں سے جو روز روشن کی طرح نمایاں ہیں انکار بھی کردے اور مسلمان ہونے کیلئے کوئی نشان چاہے اور اس بارے میں بغیر کسی بیہودہ حجت بازی کے جس میں بدنیتی کی بو پائی جائے سادہ طور پر یہ اقرار بذریعہ کسی اخبار کے شائع کردے کہ وہ کسی نشان کے دیکھنے سے گو کوئی نشان ہو۔ لیکن انسانی طاقتوں سے باہر ہو۔ اسلا م کو قبول کرے گا۔ تو میں اُمید رکھتا ہوں کہ ابھی ایک سال پورا نہ ہوگا کہ وہ نشان کو دیکھ لیگا کیونکہ میں اُس زندگی میں سے نور لیتا ہوں جو میرے نبی ؐ متبوع کو ملی ہے۔ کوئی نہیں جو اس کا مقابلہ کرسکے۔ اب اگر عیسائیوں میں کوئی طالب حق ہے۔ یا ہندوئوں اور آریوں میں سے سچائی کا متلاشی ہے۔ تو میدان میں نکلے۔ اور اگر اپنے مذہب کو سچا سمجھتاہے تو بالمقابل نشان دکھلانے کے لئے کھڑا ہو جائے لیکن میں پیشگوئی کرتا ہوں کہ ہرگز ایسانہ ہوگابلکہ بدنیتی سے پیچ درپیچ شرطیں لگاکر بات کو ٹال دینگے کیونکہ ان کا مذہب مُردہ ہے اورکوئی ان کیلئے زندہ فیض رساں موجود نہیں۔ جس سے وہ رُوحانی فیض پاسکیں اور نشانوں کے ساتھ چمکتی ہوئی زندگی حاصل کرسکیں۔‘‘

(تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ۱۴۰،۱۴۱)

سیدناحضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے ہی اَب خداتعالیٰ مل سکتاہے۔اس کے بارہ میں آپؑ فرماتے ہیں۔

’’مَیں اس جگہ کچھ گزشتہ قصّوں کو بیان نہیں کرتا بلکہ مَیں وہی باتیں کرتا ہوں جن کا مجھے ذاتی علم ہے۔ مَیں نے قرآن شریف میں ایک زبردست طاقت پائی ہے مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پَیروی میں ایک عجیب خاصیت دیکھی ہے جو کسی مذہب میں وہ خاصیت اور طاقت نہیں اور وہ یہ کہ سچا پیرو اس کا مقاماتِ ولایت تک پہنچ جاتا ہے۔ خدا اس کو نہ صرف اپنے قول سے مشرف کرتا ہے بلکہ اپنے فعل سے اس کو دکھلاتا ہے کہ مَیں وہی خدا ہوں جس نے زمین و آسمان پیدا کیا تب اس کا ایمان بلندی میں دُور دُور کے ستاروں سے بھی آگے گذر جاتا ہے۔ چنانچہ مَیں اس امر میں صاحب مشاہدہ ہوں خدا مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے اور ایک لاکھ سے بھی زیادہ میرے ہاتھ پر اُس نے نشان دکھلائے ہیں سو اگرچہ مَیں دنیا کے تمام نبیوں کا ادب کرتا ہوں اور ان کی کتابوں کا بھی ادب کرتا ہوں مگر زندہ دین صرف اسلام کو ہی مانتا ہوں کیونکہ اس کے ذریعہ سے میرے پر خدا ظاہر ہوا جس شخص کو میرے اس بیان میں شک ہو اس کو چاہئے کہ ان باتوں کی تحقیق کے لئے کم سے کم دو ماہ کے لئے میرے پاس آ جائے۔ مَیں اس کے تمام اخراجات کا جو اس کے لئے کافی ہو سکتے ہیں اس مدت تک متکفّل رہوں گا۔ میرے نزدیک مذہب وہی ہے جو زندہ مذہب ہو اور زندہ اور تازہ قدرتوں کے نظارہ سے خدا کو دکھلا وے ورنہ صرف دعویٰ صحت مذہب ہیچ اور بلا دلیل ہے۔‘‘(مضمون جلسہ لاہور صفحہ ۶۰ منسلکہ چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۴۲۸)

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تحریرات نے دنیامیں ایک تہلکہ مچادیا۔اور ایسے عظیم الشان نتائج برآمد کئے جو آنحضرت ﷺ کے بعد اسلام میں کسی اورسے ظہورپذیرنہیں ہوئے۔چنانچہ ایک شہادت غیراز جماعت کی پیش ہے۔

’’وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو۔ وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی۔ جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار الجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں۔ وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان رہا۔ جو شور قیامت ہو کر خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا… مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جاوے۔ ایسے شخص جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پید اہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے۔ یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم منظر عالم پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں تو دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر کے دکھا جاتے ہیں۔ مرزا صاحب کی اس رفعت نے ان کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو، ہاں تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرا دیا ہے کہ ان کا ایک بڑا شخص ان سے جدا ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ مخالفین اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا جو اس کی ذات کے ساتھ وابستہ تھی خاتمہ ہو گیا۔ ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جائے… میرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر ان سے ظہور میں آیا قبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اس لٹریچر کی قدر و عظمت آج جبکہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے…آئندہ امید نہیں کہ ہندوستان کی مذہبی دنیا میں اس شان کا شخص پیدا ہو۔‘‘

(اخبار وکیل امرتسر بحوالہ سلسلہ احمدیہ جلداوّل صفحہ 183،184)

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں۔

وہ دیکھتا ہے غیروں سے کیوں دل لگاتے ہو

جو کچھ بتوں میں پاتے ہو اُس میں وہ کیا نہیں

سورج پہ غور کر کے نہ پائی وہ روشنی

جب چاند کو بھی دیکھا تو اُس یار سا نہیں

واحِد ہے لاشریک ہے اور لازوال ہے

سب موت کا شکار ہیں اُس کو فنا نہیں

سب خیر ہے اِسی میں کہ اُس سے لگاؤ دِل

ڈھونڈو اُسی کو یارو! بُتوں میں وفا نہیں

اِس جائے پُر عذاب سے کیوں دِل لگاتے ہو

دوزخ ہے یہ مقام یہ بُستاں سرا نہیں

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تحریرات سے خداملنے کی حقیقت کا  اظہاکرتے ہوئے ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔

’’عزیزو! یہی وہ چشمہء رواں ہے کہ جو اس سے پیے گا وہ ہمیشہ کی زندگی پائے گا اور ہمارے سید و مولا حضرت مصطفی صلی الله علیہ وسلم کی پیشگوئی يفيض المال حتی لا يقبله احد(ابن ماجہ) کے مطابق یہی وہ مہدی ہے جس نے حقائق ومعارف کے ایسے خزانے لٹائے ہیں کہ انہیں پانے والا بھی ناداری اور بے کسی کا منہ نہ دیکھے گا۔ یہی وہ روحانی خزائن ہیں جن کی بدولت خدا جیسےقیمتی خزانے پر اطلاع ملتی ہے اور اس کا عرفان نصیب ہوتا ہے۔ ہرقسم کی علمی اور اخلاقی، روحانی اور جسمانی شفا اور ترقی کا زینہ آپ کی یہی تحریرات ہیں۔ اس خزانے سے منہ موڑنے والا دین و دنیا، دونوں جہانوں سے محروم اٹھنے والا قرار پاتا ہے اور خدا کی بارگاہ میں متکبر شمار کیا جاتا ہے،۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں۔’’جو ہماری کتابوں کو کم از کم تین دفعہ نہیں پڑھتا۔ اس میں ایک قسم کا کبر پایا جاتا ہے۔(سیرت المہدی جلد اول حصہ دوم صفحہ ۳۶۵)‘‘

(پیغام برموقعہ کمپیوٹرائزڈایڈیشن روحانی خزائن بتاریخ 10-8-2008)

دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطافرمائے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تحریرات کا مطالعہ کرکے خداتعالیٰ تک پہنچ سکیںاوردیگر مسلمان اور اقوام کو بھی ان خزائن کی اطلاع دینے والے بن سکیں۔آمین

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)