منصب خلافت اور ادائیگی زکوٰۃ

از مولوی سید قیام الدین برق صاحب مبلغ سلسلہ دعوت اللہ مرکزیہ

خدا تعالیٰ نے مذہب اسلام کے ذریعہ تکمیل دین کر کے نعمت کو بھی بنی نوع انسان کے لئے تمام کردی ۔چنانچہ اسلام کے اصول اپنے اندر گہرے فلسفے اور باہمی اتحاد رکھتے ہیں۔چنانچہ جہاں تک مسئلہ خلافت کا تعلق ہے یہ ہمارے نزدیک’’ اسلام کے اہم ترین مسائل میں سے ہے ۔بلکہ (حضرت مصلح موعود کے الفاظ میں)‘‘ میں سمجھتا ہوں اگر کلمہ شریعہ کی تفسیر کی جائے تو اس تفسیر میں اس مسئلہ کامقام سب سے بلنددرجہ پر ہوگا۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کلمہ طیبہ اسلام کی اساس ہے مگر یہ کلمہ اپنے اندر جو تفصیلات رکھتا ہے اور جن امور کی طرف یہ اشارہ کرتا ہے ان میں سے سب سے بڑا امر مسئلہ خلافت ہی ہے(خلافت راشدہ صفحہ3)اسی طرح زکوٰۃ کی اہمیت بھی اس سے ظاہر ہے کہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میںسے یہ ایک رکن ہے اور’’زکوٰہ کی ضرورت اور اہمیت اور غربت ایک ایسی چیز ہے جو کبھی بھی بنی نوع انسان سے جدا نہیںہوئی‘‘ (تفیسرکبیر صفحہ20سورۃ النمل)اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا طریق یہ ہے کہ صاحب نصاب مسلمان اپنا واجب الادا حصہ امام جماعت کے پاس پیش کرےاور امام جماعت جوپوری جماعتکے ہر قسم کے حالات کی رپورٹیں لیتا ہے اس کے مطابق حاصل شدہ زکوٰۃ کو مناسب جگہ خرچ کرے۔مگر ایسا نہیں ہو سکتا کہ خود زکوٰہ دینے والا اپنے حصہ کو اپنی مرضی کے آدمیوں،اشخاص میں خود ہی تقسیم کرے۔اس طرح زکوٰۃ کی ادائیگی ہر گز نہیں ہو سکتی اس لئے ہمارے مذہب اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ خلافت کے بغیر زکوٰۃ کی ادائیگی ہوہی نہیں سکتی۔حقیقت یہ ہے کہ’’تمام علماء امت نے یہ اصول تسلیم کیا ہے کہ زکوٰۃ کی تقسیم امام وقت کا حق تھا(بحوالہ فقہ احمدیہ)چنانچہ

’’ دیکھ لورسول کریم ﷺ کے زمانہ میں زکوٰۃ کی وصولی کا باقاعدہ انتظام تھا۔پھر جب آپ کی و فات ہوگئی اور حضرت ابو بکر ؓ خلیفہ ہوگئےتو اہل عرب کے کثیر حصہ نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ حکم صرف رسول کریم ﷺ کے لئے مخصوص تھا بعد کے خلفاء کے لئے نہیں مگر حضرت ابو بکرؓ نے ان کے اس مطالبہ کو تسلیم نہ کیا بلکہ فرمایا کہ اگر یہ لوگ اونٹ کے گھٹنے کو باندھنے والی رسی بھی زکوٰۃ میں دینے سے انکار کریں گے تو میں ان سے جنگ جاری رکھوںگا اور اس وقت تک بس نہیں کروں گا جب تک ان سے اسی رنگ میں زکوٰۃ وصول نہ کرلوں جس رنگ میں وہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ادا کیا کرتے تھے چنانچہ آپ اس مہم میں کامیاب ہوئےاور زکوٰۃ کا نظام پھر جاری ہوگیا۔جو بعد کے خلفاء کےزمانوں میں بھی جاری رہا۔مگرجب سے خلافت جاتی رہی مسلمانوں میں زکوٰۃ کی وصولی کا بھی کوئی انتظام نہ رہا اور یہی اللہ تعالیٰ اس آیت (استخلاف)میں فرمایا تھا کہ اگر خلافت کا نظام نہ ہو تو مسلمان زکوٰۃ کے حکم پر عمل نہیں کر سکتے‘‘۔

(تفسیر کبیر سورۃ نور آیت347-348)

اب آئیے اس اصول کے تحت ہم جائزہ لیں کہ خلافت کے چلے جانے کے بعد زکوٰۃ کی عدم ادائیگی کے کیسے کیسے اصول بنائےگئے۔چنانچہ اسی ضمن میں دو واقعات پیش خدمت ہیں۔

ایک واقعہ یہ ہے کہ ’’ بھیرۃ میں ایک بہت بڑا مسلمان تاجر تھاجو ہر سال باقاعدگی سے زکوٰۃ دیا کرتا تھا۔مگر اس کےزکوٰۃ دینے کا طریقہ یہ تھا کہ وہ زکوٰۃ کا تمام روپیہ ایک گھر میں بند کر دیتا فرض کرو اس کے پاس ایک لاکھ روپیہ ہوتا جس میں سے اڑھائی ہزار روپیہ زکوٰہ دینا اس پر فرض ہوتا تو وہ اڑھائی ہزار روپیہ ایک گھڑے میں ڈال دیتا اور ان روپیوں کے اوپر دو چار سیر گندم ڈال کر کسی ملاں کو بلاتا اور اس کی خوب پُر تکلف دعوت کرتا۔جب وہ کھانے سے فارغ ہو جاتا تو اسے کہتا مولوی صاحب اس گھڑے میںجو کچھ ہے وہ میں آپ کی ملک کرتاہوں۔لوگوں کو بھی اس کے اس طریق کاعلم تھا اور وہ جانتے تھے یہ …رکھا ہوا ہے۔جو اڑھائی تین ہزار روپیہ ہے۔مگر اسے کچھ نہیںکہہ سکتے تھے ۔تھوڑی دیر کے بعد وہ خود ہی کہتا کہ آپ اس گھڑے کو اٹھا کر کہا ںلے جائیں گے۔اسے میرے پاس ہی بیچ ڈالئے بتائے آپ اس گھڑے کی کیا قیمت لیں گے۔ملاں ڈرتے ڈرتے کہ نہ معلوم کس حد تک ہوا ہو پانچ دس یا بندر روپئے بتا دیتا اور جھٹ اتنے روپئے نکال کر اس کے سامنے رکھ دیتا اور کہتا کہ مولوی صاحب جو کچھ اس میں ہے وہ آپ نے پندرہ روپئے میں مجھے دے دیا ہے۔یہ کہہ کر وہ گھڑا اٹھا کر اندر رکھ لیتا اور سمجھ لیتا کہ اس کی طرف سے زکوٰۃ ادا ہوگئی ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر سورۃ نور صفحی339از مصلح موعودؓ)

یہ تو پرانے زمانہ کا واقعہ ہے جس سے زکوٰۃ کی عدم ادائیگی کاڈرامہ ظاہر ہوتاہے مگر اب جو زمانہ بینکوں کا ہے اور جدید سے جدید طریقے سے لوگ اپنے اموال جمع کرتے ہیں پھر زکوٰۃ واجب ہونے پر زکوٰۃ کی عدم ادائیگی کے لئے جدید سے جدید ڈرامے بھی کھیل جاتے ہیں۔چنانچہ نام نہاد نظام مصطفیٰ ﷺ والے مملکت پاکستان کا اس سلسلسہ میں اسی زکوٰۃ کی ادائیگی کے تعلق سے ایک دلچسپ واقعہ بھی سپرد قرطاس کیا جا رہا ہے یہ واقعہ 1988ء کے ایک شمارہ میں کلکتہ سے شائع ہونے والے اخبار’’آزاد ہند‘‘ کے صفحہ5 میں درج ہے۔اس اخبار میں درج سرخی کچھ اس طرح سے درج ہے۔

’’ یکم رمضان کو بنک کے کھاتوں سے زکوٰۃ کی رقم کاٹ لی جائےگی سرکاری فنڈ میں زکوٰۃ کی رقم جمع کرنے سے شیعہ اور قادیانی مستثنیٰ‘‘

ریڈیو پاکستان کی اطلاع کے مطابق پاکستان کے بنکوں میں مسلمانوں نےکھاتوں سے زکوٰۃ کی رقم ماہ رمضان کے اولین یعنی سوموار کو نکال لی جائےگی۔پورے سال کا نصاب3200روپئے یا اس سے کم مقرر کیاگیا ہے۔اگر بقیہ رقم اس سے زائد ہوگی تو 375صد کے حساب سے زکوٰۃ نکالا جائےگا شریعی احکام کے مطابق کم از کم سات تولہ سونا یا 51تولا چاندی یا اس کے برابر مال پر زکوٰۃ واجب ہے۔۔۔۔شیعوں اور قادیانیوں کو سرکاری فنڈ میں زکوٰۃ دینے سے مستثنیٰ رکھاگیا ہے۔بفرض محال اگر پہلے ہی ان کے کھاتے سے زکوٰۃ کی رقم نکالی جا چکی ہو تو انہیں یہ تحریری وضاحت دینی پڑیگی کہ وہ شیعہ یا قادیانی ہیں اور انہیں یہ رقم واپس ملنی چاہئے ہر سال انہیں یہ وضاحت دینی پڑےگی ۔شیعوں کا کہنا ہے کہ فقہ جعفریہ کے مطابق وہ اپنا زکوٰۃ مستحقین کو دیا کرتے ہیں اور حکومت پاکستان زکوٰۃ کے بٹوارے کی اہل نہیں ۔حکومت ان کی بات کو تسلیم کرتے ہوئے زکوٰۃ کی ادائیگی سے انہیں مستثیٰ کر دیا ہے۔قادیونیوں کو پاکستان میں غیر مسلم قرار دیا جا چکا ہے،جب ان کے کھاتوں سے زکوٰۃ کی رقم کاٹی گئی تو انہوں نے کہا کہ وہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے خلاف نہیں لیکن حکومت اس وجہ سے ان سے زکوٰۃ کی رقم لینے کا حق کھو چکی ہے کہ وہ انہیں مسلمان تصور نہیں کرتی  اور پھر انہیں زکوٰۃ کی ادائیگی سے مستثنیٰ کر دیا۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ صرف سنی مسلمان ہی حکومت کو یہ زکوٰۃ دیا کرتے ہیں۔وہ سنی جو زکوٰۃ کی ادائیگی سے بچنا چاہتے ہیں وہ مختلف حربے استعمال کیا کرتے ہیں کچھ لوگ سال کے خاتمہ سے قبل نصاب سے فاضل رقم اپنی اہلیہ یا دوسرے رشتہ داروں کے نام منتقل کر دیا کرتے ہیں۔علاوہ ازیں جن کی بیویاں شیعہ ہیں وہ اپنی رقم ان کے نام منتقل کرتے ہیں۔‘‘

خاص کر بعض تاجر پیشہ حضرات زکوٰۃ کی ادائیگی سے بچنے کے تعلق سے خوب خوب حیلہ اور بہانہ تراشتے رہتے ہیں اس تعلق سے حکم و عدل حضرت اقدس مام مہدی علیہ السلام کا ایک واضح ارشاد قابل غور ہے ۔آپ ؑ فرماتے ہیں

’’ جو مال معلق ہے اس پر زکوٰۃ نہیں جب تک کہ اپنےقبضہ میں نہ آجائے۔لیکن تاجر کو چاہئے کہ حیلہ بہانہ سے زکوٰۃ کو نہ ٹال دے۔آخر اپنی حیثیت کے مطابق اپنے اخرجات بھی تو اسی مال میں سے برداشت کرتا ہے۔تقویٰ کے ساتھ اپنے مال موجودہ اور معلق پر نگاہ ڈالے اور مناسب دے کر خدا تعالیٰ کو خوش کرتا رہے۔بعض لوگ خدا کے ساتھ بھی حیلے بہانے کرتے ہیں یہ درست نہیںہے۔‘‘(مجموعہ فتاویٰ احمدیہ جلد اوّل فحہ168) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خلافت حقہ اسلامیہ کا بابرکت سایہ اٹھ جانے کے بعد ارکان اسلام سے کھیلنے والے نام نہاد مسلمان کیا کیاگل کھلا رہے ہیں۔الحمد للہ ثم الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے پھر سےخلافت علی منھاج نبوت ہمیں عطا کی ہے مگر جن لوگوں نے اس نعمت کو جذب قدر کی نگاہ سے دیکھا انہوں نےارکان اسلام کی کماحقہ ادائیگی کی توفیق بھی پائی اور پا بھی رہے ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جماعت احمدیہ مسلمہ میں موجود ہ خلافت اپنے ساتھ حکومت نہیں رکھتی مگر زکوٰۃ اور انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعہ سے حالات حاضرہ کے سب سے بڑے جہاد دعوت الی اللہ میں ایک نظام کے مطابق وسیع پیمانے پر عمل ہو رہا ہے نیز غرباء اور مساکین کی ہمدردی کو بھی ما شا اللہ توفیق مل رہی ہے۔اس کی مثال تحریک بیوت الحمد۔سیدنا بلال فنڈ،مریم فنڈوغیرہ سے دی جا سکتی ہے۔آخر پر دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب پر خلافت کا بابرکت سایہ دراز کرتا چلا جائے تاکہ ہم اور ہماری نسلیں زکوٰۃ سمیت جملہ ارکان اسلام پر کاربند ہوتے ہوئے رضائے الٰہی کو حاصل کرنے والے بنیں۔آمین

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)